Language:

غازی محمد صدیق شہید رحمۃ اللہ علیہ

دنیا میں ایسے آدمی بہت کم ہوتے ہیں جن کے سامنے کوئی بلند مقصد ہو اور وہ اس کی خاطر اپنی جان کی بازی لگا دینے سے ذرا سا بھی تامل نہ کریں۔ ایسے ہی آدمیوں سے قوموں کی زندگی کے چراغ روشن رہتے ہیں اور ایسے ہی آدمیوں سے ملتوں کی تاریخ بنتی ہے۔ قصور کے غازی محمد صدیق شہیدؒ اس صف کے ایک ممتاز مجاہد تھے۔

پالامل ایک ہندو سنار تھا جو ہندو ساہو کاروں کی پشت پناہی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتا رہتا تھا۔ 16 مارچ 1934ء کو اس نے حضور سرور کائناتصلی اللہ علیہ وسلم  کی ذات اقدس کے متعلق نازیبا کلمات کہے۔ توہین رسالتصلی اللہ علیہ وسلمکی اس قبیح حرکت پر سارے شہر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پالامل کے خلاف استغاثہ دائر ہوا اور عدالت نے جرم ثابت ہونے پر اسے چھ ماہ قید اور دو سور روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ مجرم نے سیشن جج کی عدالت میں اپیل کر دی اور ضمانت پر رہا ہو گیا۔ ادھر یہ ہوا کہ شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک پروانے غازی محمد صدیق کا مقدر جاگ اٹھا۔ خواب میں رحمت عالم حضور سرور کائناتصلی اللہ علیہ وسلمکی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ملا۔

’’قصور میں ایک ہندو ہماری شان میں گستاخیاں کر رہا ہے۔ جائو اس کی زبان بند کرو۔‘‘

آقائے دو جہاںصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جانباز سپاہی کئی دن تک شدت غم سے نڈھال رہا۔ اس کے سینے میں غیظ و غضب کے شعلے ابل رہے تھے۔ دل میں ایک ہی جذبہ موجزن تھا کہ جلد از جلد اسے جہنم رسید کر دوں۔ چنانچہ غازمی محمد صدیق نے مجرم سے نپٹنے کی تیاری کی اور چلتے وقت اپنی والدہ سے کہا: ماں دعا کرو میں اس عظیم فرض کو بطریق احسن نبھا سکوں اور بارگاہ سرور کونینصلی اللہ علیہ وسلم میں میری قربانی منظور ہو‘‘۔ 17 ستمبر 1934ء کو یہ عظیم مجاہد دربار بابا بلھے شاہ کے پاس ایک درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور اپنے شکار کا انتظار کرنے لگا۔ جیسے ہی مجرم سامنے آیا اسے پہچان کر للکارا اور کہا: ’’میں تاجدار دو عالم رسولصلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں۔ کئی دنوں سے تیری تلاش میں تھا۔ اے ملیچھ رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ! آج تو کسی بھی طرح ذلت ناک موت سے نہیں بچ سکتا۔‘‘ یہ کہا اور نعرئہ تکبیر لگا کر اس رسولصلی اللہ علیہ وسلم کیگستاخ کو ڈھیر کر دیا۔

موقع پر موجود افراد کا بیان ہے کہ اگر غازی صاحب فرار ہونا چاہتے تو آسانی سے ایسا کر سکتے تھے مگر انہوں نے اپنا فرض ادا کر کے نماز شکرانہ ادا کی اور اطمینان سے مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ ہندوئوں کے چہرے اترے ہوئے تھے اور غازی صاحب خوشی سے مسکرا رہے تھے۔ آپ کی یہ ادا مسلمانوں کی سر بلندی اور غیرت مند فطرت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔

قتل کے الزام میں پولیس نے محترم غازی صاحب کو گرفتار کر لیا۔ اس موقع پر غازی صاحب نے پولیس آفیسر کے روبرو ایمان افروز بیان دیتے ہوئے فرمایا:’’بلاشبہ پالامل کو میں نے ہی قتل کیا ہے کیونکہ اس ملعون نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی توہین کی تھی۔ وہ دیدہ و دانستہ اس جرم کا مرتکب ہوا، اسے راجپال اور غازی علم الدین شہیدؒ کے واقعہ کا بھی بخوبی علم تھا۔ ہمارے مذہب کے مطابق وہ شخص ہرگز مسلمان نہیں بلکہ منافق ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سن کر خاموش رہے اور عصمتِ  رسولصلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان نہ کرے۔ کسی اور شخص کی ذات کا مسئلہ ہو تو برداشت ہو سکتا ہے، دنیوی امور میں کسی بھی فرد خواہ ماں بارے ہی کیوں نہ ہوں، کی شان میں گالی گلوچ پر چُپ رہا جا سکتا ہے لیکن سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ پر ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف غیظ و غضب، جوش و ولولہ اور غصہ کسی حالت میں بھی کم نہیں ہو سکتا۔ میں نے جو کچھ کیا، خوب غور و فکر کے بعد غیرتِ دینی کے سبب اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان کو برقرار رکھنے کے لیے کیا ہے۔ اس پر مجھے قطعاً تاسف یا ندامت نہیں بلکہ میں اپنے اس اقدام پر بہت خوش اور نازاں ہوں۔ عدالت زیادہ سے زیادہ جو سزا دے سکتی ہے، جب چاہے دے دے، مجھے قطعاً حزن و ملال نہ ہوگا۔ مگر جب تک ہمیں شہشناہِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی حرمت اور تقدس کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کی جاتی، کوئی نہ کوئی سرفروش نوجوان بزم دار و رسن میں چراغِ محبت جلاتا رہے گا۔ یہ تو ایک جان ہے، اس کی بات ہی کیا ہے، میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خاکِ قدم پر پوری کائنات بھی نچھاور کر ڈالوں تو میرا عقیدہ، ایمان اور عشق و وجدان یہی کہتا ہے کہ گویا ابھی حقِ غلامی ادا نہیں ہو سکا۔‘‘

سیشن کورٹ سے پھانسی کے فیصلے کے بعد حضرت غازی محمد صدیق شہیدؒ کی والدہ نے اپنے جواں سال بیٹے کی پیشانی چومتے ہوئے نہایت حوصلے کے ساتھ فرمایا:

’’بیٹا! میں تم سے بہت خوش ہوں۔ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان کے تحفظ کے لیے تم قربان گاہ پر جا رہے ہو، اس محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم  کی شان قائم رکھنے کے لیے مجھے تم جیسے 20 بیٹوں کی قربانی بھی دینا پڑے تو ربِ کعبہ کی قسم! کبھی دریغ نہ کروں اوریوں غازی محمد صدیق نے آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی حرمت و ناموس کی حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ دے کر امت مسلمہ کو تاابد سر خرو کر دیا۔‘‘ تختہ دار پہ اس پروانہ شمع رسالت کے آخری الفاظ یہ تھے:

’’میرے اللہ! تیرا ہزار شکرکہ تو نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظمت کے تحفظ کے لیے مجھ ناچیز کو کروڑوں مسلمانوں میں سے منتخب فرمایا۔‘‘

تیرے ذوقِ شہادت کا فسانہ                                        نہ بھولے گا قیامت تک زمانہ

فنا کے بعد بھی زندہ رہے گا                                     تیرے ایمانِ کامل کا فسانہ!!