Language:

جھوٹی پیش گوئیاں چھٹی پیش گوئی عبداللہ آتھم

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد عیسائی مشنریوں نے برصغیر پر یلغار کر دی اور تقریباً ہر علاقہ میں مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے اپنی سر توڑ کوششیں کر دیں۔ ’’لِکُلِّ فِرْعَوْنٍ مُوْسٰی‘‘ کے مصداق اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اپنے کئی مقبول بندوں کو پیدا کیا۔جیسے مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ انھوں نے اپنی ان ناقابل فراموش اور مجاہدانہ خدمات کے نتیجہ میں دیکھتے ہی دیکھتے برصغیر کے مسلمانوں کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ اسے دیکھتے ہوئے طالب شہرت جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی نے اعلان کر دیا کہ وہ اسلام کی حمایت میں 50 کتابیں لکھے گا جس میں 300 سے زائد دلائل ہوں گے اور کسی عیسائی کو اس کا جواب دینے کی جرأت نہ ہوگی ،اس کام کے لئے  لوگوں سے لاکھوں روپیہ اکٹھا کیا اور پھر ساری رقم ہضم کر گیا۔ مسلمان مبلغین عیسائیوں کے عقائد پر قرآن اور بائبل کی روشنی میں علمی بحث کرتے جبکہ مرزا قادیانی علمی بحث و مباحثہ کے بجائے پیش گوئیاں اور موت کی دھمکیاں دیتا۔ تاکہ اُسے سستی شہرت نصیب ہو۔ اسی طرح کا ایک واقعہ عیسائیوں کے ایک معروف عالم مسٹر عبداللہ آتھم کے ساتھ پیش آیا۔ مرزا قادیانی اور عیسائی مناظر عبداللہ آتھم کے درمیان امرتسر شہر میں ایک مناظرہ طے پایا۔ یہ مناظرہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کی کوٹھی واقع امرتسر میں منعقد ہوا۔ مرزا قادیانی کے معاون حکیم نور الدین، مولوی احسن امروہی اور شیخ اللہ دتہ تھے جبکہ پادری ٹھاکر داس، پادری ٹامس ہائول اور ڈاکٹر مارٹن کلارک عبداللہ آتھم کے مددگار تھے۔

مناظرہ کا موضوع تھا ’’الوہیت مسیح‘‘ دونوں فریق 22 مئی 1893ء سے لے کر 5 جون 1893ء تک تقریباً 15 دن بحث و مباحثہ کرتے رہے۔ مرزا قادیانی اس مناظرے میں بری طرح شکست کھا گیا۔اس مناظرہ کا الٹ اثر یہ ہوا کہ منشی محمد اسماعیل منتظم مباحثہ،محمد یوسف مرزائی مباحثہ کا سیکرٹری اورمرزا قادیانی کی بیوی کا خالہ زاد بھائی میر محمد سعیدعیسائی ہو گئے۔ اپنی خفت مٹانے کے لیے مناظرہ کے آخری دن 5 جون 1893ء کو سب لوگوں کے سامنے ایک پیش گوئی کی اور اسے حسب معمول اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا۔ مرزا قادیانی نے کہا :

(1)        ’’ اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے، وہ انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی 15 ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب یہ پیشینگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سوجاکھے کیے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے۔‘‘

(جنگ مقدس صفحہ 209، 210 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 291، 292 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کے نزدیک ہاویہ میں گرنے سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں مرزا قادیانی لکھتا ہے:

(2)        ’’بشرنی ربی بعد دعوتی بموتہ الی خمسۃ عشرا شھر من یوم خاتمہ البحث۔‘‘ترجمہ: ’’میری دعا کے بعد مجھے میرے رب نے خوشخبری دی ہے کہ آتھم خاتم بحث کے دن سے لے کر پندرہ ماہ کے اندر مر جائے گا۔‘‘

(کرامات الصادقین صفحہ 121 مندرجہ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 163 از مرزا قادیانی)

اس کے بعد مرزا قادیانی اور مسٹر آتھم کے درمیان جاری مناظرہ ختم ہو گیا۔ مرزا قادیانی نے مزید کہا:

(3)        ’’میں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ معمولی بحثیں تو اور لوگ بھی کرتے ہیں۔ اب یہ حقیقت کھلی کہ اس نشان کے لیے تھا۔ میں اس وقت یہ اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشینگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے، وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لیے تیار ہوں، مجھ کو ذلیل کیا جاوے۔ روسیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جاوے۔ مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کے لیے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین آسمان ٹل جائیں، پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔‘‘

 (جنگ مقدس صفحہ 211 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 292، 293 از مرزا قادیانی)

(4)مرزا قادیانی نے مزید کہا:’’اب اس سے زیادہ میں کیا لکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی فیصلہ کر دیا ہو۔ اب ناحق ہنسنے کی جگہ نہیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سُولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔‘‘

 (جنگ مقدس صفحہ 211 مندرجہ روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 293 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی نے آتھم کے 5 ستمبر 1894ء تک مرنے کی جو پیش گوئی کی تھی، اس پر اس نے خدائی قسم بھی اٹھائی تھی۔ اور اس نے یہ بات بڑی تاکید اور اعتماد سے کہی تھی کہ ایسا ہو کر رہے گا، خدا کی بات ٹل نہیں سکتی۔ مگر جب یہ خبر اللہکی طرف سے تھی تو پھر مرزا قادیانی کو خود ڈرنے اور گھبرانے کی کیا ضرورت تھی۔ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے جوں جوں دن گزرتے جاتے، مرزا قادیانی اور اس کے مریدوں کی پریشانی، گھبراہٹ اور بدحواسی میں اضافہ ہوتا جاتا۔ حتیٰ کہ معیاد کے پورا ہونے میں صرف ایک دن رہ گیامگر آتھم خیریت سے تھا۔ مرزا قادیانی نے آتھم کی موت کے لئے چنے پڑھوانے شروع کر دیے  اس سلسلہ میں مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد ایم اے کا اعترافی بیان ملاحظہ فرمائیں:

(5)        ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ جب آتھم کی میعاد میں صرف ایک دن باقی رہ گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے اور میاں حامد علی مرحوم سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے) لے لو اور ان پر فلاں سورۃ کا وظیفہ اتنی تعداد میں پڑھو (مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی) میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے وہ سورۃ یاد نہیں رہی مگر اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی سورۃ تھی جیسے الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل الخ ہے۔ اور ہم نے یہ وظیفہ قریباً ساری رات صرف کر کے ختم کیا تھا۔ وظیفہ ختم کرنے پر ہم وہ دانے حضرت صاحب کے پاس لے گئے کیونکہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ وظیفہ ختم ہونے پر یہ دانے میرے پاس لے آنا۔ اس کے بعد حضرت صاحب ہم دونوں کو قادیان سے باہر غالباً شمال کی طرف لے گئے اور فرمایا یہ دانے کسی غیر آباد کنوئیں میں ڈالے جائیں گے، اور فرمایا کہ جب میں دانے کنوئیں میں پھینک دوں تو ہم سب کو سرعت کے ساتھ منہ پھیر کر واپس لوٹ آنا چاہیے، اور مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے ایک غیر آباد کنوئیں میں ان دانوں کو پھینک دیا اور پھر جلدی سے منہ پھیر کر سرعت کے ساتھ واپس لوٹ آئے۔ اور ہم بھی آپ کے ساتھ جلدی جلدی واپس چلے آئے اور کسی نے منہ پھیر کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔‘‘                                                                                 (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 178 از مرزا بشیراحمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کے بڑے بیٹے مرزا محمود کا کہنا ہے کہ اس دن ہمارے گھر ماتم برپا تھا اور عورتوں کی طرح بین جاری تھا۔ اس کا کہنا تھا:

(6)        ’’جب آتھم کی پیشگوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب سے دعائیں کی گئیں۔ میں نے تو محرم کا ماتم بھی کبھی اتنا سخت نہیں دیکھا۔۔۔تیسری طرف بعض نوجوان (جن کی اس حرکت پر بعد میں برا بھی منایا گیا) جہاں حضرت خلیفہ اول مطب کیا کرتے تھے اور آج کل مولوی قطب الدین صاحب بیٹھتے ہیں، وہاں اکٹھے ہو گئے اور جس طرح عورتیں بین ڈالتی ہیں، اس طرح انھوں نے بین ڈالنے شروع کر دیے۔ ان کی چیخیں سو سو گز تک سنی جاتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک کی زبان پر یہ دعا جاری تھی کہ یا اللہ آتھم مر جائے، یا اللہ آتھم مر جائے، مگر اس کہرام اور آہ زاری کے نتیجہ میں آتھم تو نہ مرا۔‘‘

( مرزا بشیر الدین محمود کی تقریر، روزنامہ الفضل قادیان 20 جولائی 1940ء)

قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ اس دن کس کے گھر ماتم برپا ہونا چاہیے تھا؟ مرزا قادیانی کے گھر یا آتھم کے گھر؟ مرزا قادیانی اوراس کے مریدین و اہل خانہ کو پورے اطمینان کے ساتھ آتھم کے مرنے کی خبر کا انتظار کرنا چاہیے تھا مگر یہاں معاملہ برعکس ہوا۔ بالآخر 5 ستمبر 1894ء کا دن گزر گیا۔ مرزا قادیانی اور اس کی جماعت کو شرمندگی، ذلت اور رسوائی کی وجہ سے سر چھپانے کو جگہ نہ مل رہی تھی۔ 6 ستمبر کی صبح ہوتے ہی عیسائیوں نے مرزا قادیانی کی اس پیش گوئی کے غلط اور جھوٹا ہونے پر بڑا جلوس نکالا جس کی قیادت آتھم نے کی۔ انھوں نے بڑے بڑے پوسٹر شائع کیے۔ مرزا قادیانی کا پتلا بنا کر اس پر جوتے مارے اور اسے پھانسی دی۔ بعض عیسائی رسی لے کر قادیان میں مرزا قادیانی کے گھر اُسے سولی دینے کے لیے ’’حاضر‘‘ ہو گئے تھے مگر مرزا قادیانی کو گھر سے باہر آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اور لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کو خود اس کے اپنے الفاظ میں ’’تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ لعنتی سمجھنے پر مجبور ہوئے۔‘‘

بعدازاںڈھیٹوں او ر بے شرموں کے سردار مرزا قادیانی نے کہا کہ خدا نے اسے بتایا کہ اس نے آتھم کو مزید کچھ عرصہ کے لیے مہلت دے دی تھی، اس لیے وہ وقت معیاد میں نہیں مرا۔ مرزا قادیانی نے لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا:

(7)’’اطلع اللّٰہ علٰی ھمہ و غمہ۔خدا تعالیٰ نے اس کے ہم و غم پر اطلاع پائی اور اس کو مہلت دی۔‘‘

(انوار الاسلام صفحہ 2 مندرجہ روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 2 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کی کتاب ’’انوار الاسلام‘‘ 27 اکتوبر 1894ء کی تصنیف ہے جبکہ پیش گوئی کی میعاد 5 ستمبر 1894ء تھی۔ جب یہ میعاد گزر گئی تو پھر خدا نے (ڈیڑھ ماہ بعد) مرزا قادیانی کو بتایا کہ ہم نے اسے مہلت دے دی ہے، اس لیے اب وہ نہیں مرے گا۔ کاش مرزا قادیانی کا خدا اسے وقت سے پہلے بتا دیتا تو چنے خراب ہوتے اور نہ مرزائیوں کے گھر ماتم برپا ہوتا۔ مرزا قادیانی کی اس بات میں کوئی وزن نہیں۔  پھر تقریباً 8 سال بعد (1902ء میں) مرزا قادیانی نے اپنی ذلت و رسوائی پر پردہ ڈالنے کے لیے عجیب نکتہ اٹھایا کہ آتھم نے اسی مجلس (5 جون 1893ئ) میں رجوع کر لیا تھا۔ (اعجاز احمدی صفحہ 2 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 109 از مرزا قادیانی)سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آتھم نے اسی مجلس میں رجوع کر لیا تھا تو پھر مرزا قادیانی کو پیش گوئی کرنے، چنے پڑھوانے، ماتم کرنے اور پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟مزید یہاں پر مرزا قادیانی کے ایک خاص مرید ماسٹر قادر بخش کی مضحکہ خیز منطق کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اس سے آپ قادیانی فہم و فراست کے معیار کا بخوبی اندازہ لگا لیں گے۔

(8)        ’’5 ستمبر 1894ء کو جس دن عبداللہ آتھم والی پیش گوئی کے پورا ہونے کا انتظار تھا۔ آپ (یعنی ماسٹر قادر بخش صاحب) قادیان میں تھے کہ آج سورج غروب نہیں ہوگا کہ آتھم مر جائے گا۔ مگر جب سورج غروب ہو گیا تو لوگوں کے دل ڈولنے لگے۔ آپ (یعنی ماسٹر قادر بخش صاحب‘‘ فرماتے تھے کہ اس وقت مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں تھی، ہاں فکر اور حیرانی ضرور تھی لیکن جس وقت حضور نے تقریر فرمائی اور ابتلائوں کی حقیقت بتلائی تو طبیعت بشاش اور انشراح صدر پیدا ہو گیا اور ایمان تازہ ہو گیا۔ (ماسٹر قادر بخش صاحب) فرماتے تھے کہ میں نے امرتسر جا کر عبداللہ آتھم کو خود دیکھا، عیسائی اسے گاڑی میں بٹھائے ہوئے بڑی دھوم دھام سے بازاروں میں لیے پھرتے تھے۔ لیکن اسے دیکھ کر یہ سمجھ گیا کہ واقع میں یہ مر گیا ہے۔ اور یہ صرف اس کا جنازہ ہے۔ جسے لیے پھرتے ہیں۔ آج نہیں تو کل مر جائے گا۔‘‘

 (’’رحیم بخش صاحب۔ ایم۔ اے ولد ماسٹر قادر بخش صاحب‘‘ کا مضمون مندرجہ اخبار الحکم قادیان جلد 25 نمبر 34 مورخہ 7 ستمبر 1923ء)

قارئین کرام: ایک دفعہ پھر مرزا قادیانی کی الہامی پیش گوئی کا جائزہ لیتے ہیں:

1۔مرزا قادیانی نے 5 جون 1893ء کو کہا تھا کہ میں اور آتھم میں جو جھوٹا ہوگا، وہ 15 ماہ کے اندر ہاویہ میں گرے گا یعنی مر جائے گا۔-2        جب پیش گوئی پوری ہوگی تو بعض اندھے دیکھنے لگیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے۔-3مرزا قادیانی نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تومجھے ذلیل کیا جائے!زمجھے رو سیاہ کیا جائے!زمیرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے!زمجھ کو پھانسی دی جائے!-4مرزا قادیانی نے کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لیے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو۔-5پیش گوئی کی میعاد ختم ہونے کے ایک دن پہلے قادیان میں پریشانی اور گھبراہٹ کے بادل امڈ آئے۔ مرزا قادیانی اپنے مریدوں سے مل کر سفلی عملیات کرواتا رہا۔ بقول مرزا محمود گھروں میں ماتم ہو رہے تھے۔ لوگوں نے چیخ و پکار سے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔

قارئین کرام: آتھم کے متعلق مرزا قادیانی کی پیش گوئی سو فیصد جھوٹی نکلی۔ اس طرح وہ بقلم خود جھوٹا نکلا اور لعنتیوں سے زیادہ لعنتی قرار پایا۔ یہ فیصلہ خود اس کا اپنا کیا ہوا ہے۔