Language:

کادیانی اور دو سرے کافروں میں کیا فرق ہے

آپ گھر بیٹھے ہیں۔ آپ کے گھر کے دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ آپ اپنے بیٹے سے کہتے ہیں۔ ”بیٹا باہر دیکھو کون آیا ہے؟”
بیٹا آکر کہتا ہے ۔ ”ابو جی، بوٹا سنگھ آیا ہے۔ مہند سنگھ آیا ہے۔ ”آپ اندر بیٹھے سمجھ گئے کہ میرا ملاقاتی ایک سکھ ہے۔
اگر بیٹا آکر کہتا ہے۔”ابوجی رام داس آیا ہے، پریم چندر آیا ہے۔”آپ اندر بیٹھ کر سمجھ گئے کہ میرا ملاقاتی ایک ہندو ہے۔
اگر بیٹا ذکر کرتا ہے۔ ”ابو جی! محمد حسین قریشی آیا ہے، احمد علی عباسی آیاہے۔”آپ اندر سمجھ گئے کہ میرا ملاقاتی ایک مسلمان ہے۔
آپ جذبہ اشتیاق سے اٹھتے ہیں کہ میرا ایک مسلمان بھائی مجھ سے ملنے کے لئے آیا ہے۔ جب آپ باہر جاتے ہیں تو آپ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ آپ کے سامنے ایک قادیانی ملعون کھڑا ہے۔
پہلی تینوں صورتوں میں آپ مختلف کافروں کو ان کے نام سے پہچان گئے۔ لیکن جب قادیانی کافر آیا تو وہ آپ کو دھوکہ دے گیا۔ کیونکہ اس کافر نے اپنا نام مسلمانوں جیسا رکھا ہوا ہے۔
آپ کسی عیسائی سے پوچھیں۔”تیرے مذہب کا کیا نام ہے؟”وہ فوراً کہے گا۔ ”عیسائیت”
آپ کسی ہندو سے پوچھئیے”تیرے مذہب کا کیا نام ہے؟”وہ فوراً بولے گا۔ ”ہندومت”
آپ کسی سکھ سے سوال کریں گے”تیرے مذہب کاکیا نام ہے؟”وہ فورا ً کہے گا۔ ”سکھ مت”
آپ کسی قادیانی کافر سے پوچھئے تیرے مذہب کا کیا نام ہے؟وہ فوراً کہے گا”اسلام”
دنیا کاکوئی کافر اپنے مذہب کو اسلام نہیں کہتا جبکہ قادیانی دنیا کا واحد کافر ہے جو اپنے کفر کو اسلام کہتا ہے۔
آپ کسی عیسائی سے سوال کریں”تیری کتاب کا کیانام ہے؟”وہ کہے گا”انجیل”
آپ کسی ہندو سے سوال کریں ”تیری کتاب کا کیا نام ہے؟”وہ کہے گا”وید”
آپ کسی سکھ سے پوچھیں ”تیری مذہبی کتاب کا کیا نام ہے؟”وہ جواباً کہے گا۔ ”گرنتھ”
آپ کسی قادیانی کافر سے پوچھے ‘تیری مذہبی کتاب کا کیانام ہے؟”وہ فوراً کہے گا”قرآن مجید”
پہلی تینوں صورتوں میں ہر کافر نے اپنی اپنی مذہبی کتابوں کے نام بتائے ہیں۔ لیکن مکار قادیانی کافر نے اپنی مذہبی کتاب کا نام ”قرآن مجید” بتا کر مسلمانوں کی کتاب پر قبضہ کیا ہے۔
آپ کسی عیسائی سے پوچھیں”تیری عبادت گاہ کا کیا نام ہے۔”وہ بولے گا ”گرجا”
آپ کسی ہندو سے پوچھیں”تیری عبادت گاہ کا کیا نام ہے؟”وہ کہے گا ”مندر”
آپ کسی سکھ سے پوچھیں ”تیری عبادت گاہ کا کیا نام ہے؟”وہ کہے گا ”گوردوارہ ”
آپ عیار قادیانی کافر سے پوچھیں ”تیری عبادت گاہ کا کیا نام ہے؟”وہ فوراً منہ کھول کر کہے گا ”مسجد”
پہلی صورتوں میں سارے کافروں نے اپنی اپنی عبادت گاہ کا نام بتایا۔ لیکن جب قادیانی کافر آیا تو اس نے مسلمانوں کی مسجد پر قبضہ کرنے کی ناپاک جسارت کی۔
محترم قارئین! دنیا کے سارے کافر اسلام کے لئے سانپ ہیں۔ ہر سانپ کا علیحدہ علیحدہ رنگ ہے۔ ہر سانپ کے چلنے کی اپنی اپنی سرسراہٹ ہے۔ یہ ”کھپرا” سانپ ہے۔ اس کی کوئی سرسراہٹ نہیں ۔ اس کی کوئی پھنکار نہیں۔ اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب یہ ڈنک مار کر ایمان کا چراغ گل کردیتا ہے۔
دنیا کے سارے کافر زہر کو زہر کے نام پر بیچتے ہیں۔ لیکن قادیانی کافر زہر کو تریاق کے نام پر بیچتا ہے۔ دنیا کے سارے کافر شراب کو شراب کے نام پر بیچتے ہیں لیکن قادیانی کافر شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل لگاتا ہے۔ دنیا کے سارے کافر خنزیر کے گوشت کو خنزیر کے گوشت کے نام پر فروخت کرتے ہیں لیکن قادیانی کافر خنزیر کے گوشت کو بکرے کے گوشت کے نام پر بیچتا ہے۔ دنیا کے سارے کافر شراب خانے پر شراب خانے کا بورڈ لگاتے ہیں لیکن قادیانی کافر شراب خانے پر مسجد کا بورڈ لگاتا ہے۔ عام کافر تلوار سے حملہ کرنے والادشمن ہے لیکن قادیانی کافر کھانے میں زہر ملانے والا دشمن ہے۔ عام کافراسلام کے قلعہ کے مین دروازے کو توڑ کر اندر داخل ہونا چاہتا ہے لیکن قادیانی کافر قلعہ میں سرنگ لگا کر داخل ہوتا ہے۔
آپ کسی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کھڑے ہوں۔ آپ کسی شخص کو دیکھتے ہیں جس نے گلے میں صلیب لٹکا رکھی ہے تو آپ فوراً سمجھ جائیں گے کہ وہ شخص عیسائی ہے۔ اگر آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جس کے گلے میںمورتی لٹک رہی ہو تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ شخص ہندو ہے۔ اگر آپ کسی شخص کو دیکھتے ہیں جس کے بازو میں کڑا، چہرے پر داڑھی اور سرپر مخصوص طرز کی پگڑی ہو تو آپ فوراً سمجھ جائیں گے کہ وہ شخص سکھ ہے۔ اگر آپ کسی شخص کو دیکھیں کہ اس کے گلے میں ”اللہ” کا لاکٹ ہے یا سینہ پر کلمہ طیبہ کا بیچ ہے اور اس نے ہاتھ میں تسبیح پکڑ رکھی ہے۔ آپ اسے مسلمان سمجھ کر اس کے پاس جائیں تو وہ آپ کو یہ بتا کر حیران وششدر کرسکتا ہے کہ وہ قادیانی ہے اور پھر اپنا زہریلا منہ کھول کر اور متعفن دانت نکال کر آپ پر زہریلی ہنسی ہنس سکتا ہے۔
اللہ رہے اسیری بلبل کا اہتمام صیاد عطر مل کے چلا ہے گلاب کا
محترم قارئین! حضرت سلیمان علیہ السلام کا عہد تھا۔ بہار کاموسم تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔گُلوں کی خوشبو نے فضامیںمستی پیدا کررکھی تھی۔ درخت کی ایک شاخ پر ایک ہد ہد کا جوڑا خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ سامنے سے ایک شخص آرہا تھا۔ ہوا کے جھونکوں سے جھولتی شاخ پر بیٹھی مادہ ہد ہد نے جب اس شخص کو درخت کی جانب آتے دیکھا تو وہ چونک اٹھی اور اپنے خاوند سے کہا ”سرتاج اڑ چلیں ۔ شکاری آرہا ہے۔”
نرہد ہد نے صورتحال کا جائزہ لے کر کہا ”پگلی! دیکھ کیا شکاری اس طرح کے ہوتے ہیں۔ دیکھتی نہیں اس نے گیروے رنگ کا پھٹا پرانا لباس پہنا ہوا ہے۔ پائوں سے ننگا ہے۔ بال گرد سے بھرے ہوئے ہیں۔ چہرہ غبار آلود ہے۔ وہ اپنی مستانی چال میںچلا جارہا ہے۔ اسے تواپنے کی بھی ہوش نہیں۔ یہ تو کوئی سادھو ہے۔ جو جنگل کی سیاحت کررہا ہے۔ مادہ ہد ہد اپنے خاوند کے دلائل سے مطمئن ہوگئی اور وہ دونوں پھر اپنی رسیلی باتوں میں مگن ہوگئے۔ شکاری نے انہیں غافل پا کر نشانہ لیا اور غلیل چلا دی۔ نشانہ ہدہد کو لگا اور وہ تڑپتا پھڑکتا زمین پر آگرا۔ ظالم شکاری دھم دھم بھاگتا آیا۔ اس نے تڑپتے ہوئے ہد ہد کو پکڑا جیب سے خنجر نکالا اور اسے ذبح کر کے تھیلے میں ڈالا اور اپنا راستہ لیا۔ مادہ ہد ہد روتی دھوتی ، آہ وفغاں کرتی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچی اور کہا کہ فلاں شخص نے میرے خاوند کو قتل کردیا ہے۔ میرے ساتھ انصاف کیا جائے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم پر شکاری کو دربا ر میں حاضر کیا گیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے شکاری سے کہا کہ تو نے اس کے خاوند کوکیوں قتل کیا ہے؟ شکاری نے جواب دیا”حضور میںنے اس کے خاوند کو قتل نہیں کیا۔ میںنے تو اسے شکار کیا ہے اور شکار کرنا آپ کی شریعت میں جائز ہے۔”
حضرت سلیمان علیہ السلام مادہ ہد ہد کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا ”شکاری نے شکار کیا ہے۔ اور شکار کرنا جائز ہے۔ اس لیے یہ مجرم نہیں” مادہ ہد ہد آنسو برساتی ہوئی بولی۔ ”اللہ کے نبی! میرا مقدمہ یہ ہے کہ اگر یہ شکاری ہے تو شکاریوں والا لباس پہنے۔ یہ سادھوئوں والا روپ دھار کے شکاریوں والا کام کرتا ہے۔ یہ اپنے لباس اور اپنی وضع قطع سے دھوکا دیتا ہے۔ میرا خاوند صرف اس لیے مارا گیا کہ اس نے اس کے روپ سے دھوکا کھایا۔”
دوستو! آج ہم بھی یہی رونا روتے ہیں کہ قادیانی شکاری مسلمانوں والا لباس پہن کر مسلمانوں والا حلیہ بنا کر اور خود کو مسلمان ظاہر کر کے مسلمانوں کے ایمانوں کو شکار کررہے ہیں۔ ہم بھی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے ہر اس قدم کی روک تھام کی جائے جس کے ذریعے سے یہ گروہ مسلمانوں کو دھوکا دے سکتا ہے ۔افسوس کہ ایسا قانون موجود ہے مگر اس کے باوجود اس پر عمل کروانے کی عملی کوشش آج تک نہیں کی گئی ۔اور اگر مسلمانوں نے قادیانیوں کے کھلے عام شعائر اسلامی استعمال کرنے اور خود کو بر ملاء مسلمان کہنے سے روکنے کے لئے اس قانون کے ذریعے انتظامیہ سے درخواست بھی کی ہے تو بجائے شنوائی کے مسلمانوں کی حو صلہ شکنی کی گئی ۔مسلمانوں کو یہ سمجھا یا گیا کہ جناب یہ تو ان کا حق ہے ۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ قادیانی عدالتوں کے فیصلوں پر عمل کرتے ہوئے اپنے شعائر وضع کریں اور اس کے مطابق اپنی عبادات کریں یہ تو ان کا حق بنتا ہے مگر دنیا کا کون سا قانون کہتا ہے کہ دھوکہ دینا کسی کا حق ہے ۔ کیا اتنی موٹی اور واضح سی بات ہمارے ارباب اختیار کو سمجھ نہیں آتی ؟نہ معلوم یہ آپ کی ناسمجھی ہے یا معصومیت ؟
ایک بہت بڑے وکیل صاحب کے گھر ڈکیتی ہوگئی۔ لوگ پرسش احوال کے لئے ان کے گھر جمع ہوئے۔ انہوں نے وکیل صاحب سے کہا کہ آپ جیسا ہوشیار اور چالاک شخص ڈاکوئوں سے دھوکا کیوں کھا گیا؟ آپ جیسے ذہین اور ذکی شخص نے ڈاکوئوں کے لیے گیٹ کیوں کھول دیا؟ وکیل صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری اور نظریں جھکا کر کہنے لگے کہ ڈاکو ”پولیس کی وردی” میں آئے تھے۔
مسلمانو!پوری دنیا میں ہر قادیانی پولیس کی وردی پہن کر اسلام اور مسلمانوں پر ڈاکہ زنی کررہا ہے۔ وہ محافظ اسلام کا لباس پہن کر ایمان کی رہزنی کررہا ہے۔ وہ چوکیدار کا روپ دھار کر ڈکیتیاں کررہا ہے۔
مسلمانو! اگر جناب محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارا عشق و غیرت کا رشتہ ہے تو ان چوروں، ان ڈاکوئوں، کو پکڑنے کے لئے اپنے سارے وسائل اور ساری صلاحیتیں صرف کردو۔ ورنہ یہ سفاک جگہ جگہ مسلمانوں کے ایمانوں کے مقتل تعمیر کردیں گے۔
بارہا دیکھا ہے دیدہ ایام نے کفر حق کے بھیس میں آیا ہے حق کے سامنے