Language:

مرزا کادیانی اور حج

حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
”بے شک پہلا (عبادت) خانہ جو بنایا گیا لوگوں کے لیے وہی ہے جو مکہ میں ہے بڑا برکت والا، ہدایت کا سرچشمہ ہے سب جہانوں کے لیے اس میں روشن نشانیاں ہیں۔ (ان میں سے ایک) مقام ابراہیم ہے اور جو بھی داخل ہوا اس میں، ہو جاتا ہے (ہر خطرہ سے محفوظ) اور اللہ کے لیے، فرض ہے لوگوں پر حج اس گھر کا جو طاقت رکھتا ہو وہاں تک پہنچنے کی اور جو شخص (اس کے باوجود) انکار کرے تو بے شک اللہ بے نیاز ہے سارے جہاں سے۔”(آل عمران: 96، 97)
حضور نبی کریمۖ کا ارشاد گرامی ہے:”جس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے حج کیا پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی۔ وہ ایسا پاک صاف ہو کر آتا ہے جیسا ولادت کے دن تھا۔” (مشکوٰة ص 221)
اس کے برعکس حضور خاتم النبیینۖ نے باوجود استطاعت کے حج نہ کرنے والوں کے لیے ارشاد فرمایا:”جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کے لیے زاد راہ اور سواری رکھتا ہو۔ لیکن اس کے باوجود اس نے حج نہیں کیا، تو اس کے حق میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی یا عیسائی ہو کر مرے۔” (مشکوٰة ص 222)
فتنہ قادیانیت کے بانی آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی پوری زندگی میں باوجود استطاعت کے حج کیا نہ عمرہ۔ ظاہر ہے باوجود طاقت کے اس سعادت سے محروم صرف وہی بدبخت ہو سکتا ہے جس کے ایمان کی جڑیں خشک ہوں۔ مرزا قادیانی کا دعویٰ تھا کہ وہ مہدی اور مسیح موعود ہے۔ حضور نبی کریمۖ کی متفقہ علیہ احادیث مبارکہ میں واضح طور پر موجود ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام خانہ کعبہ کا طواف کریں گے اور حج کریں گے۔ مرزا قادیانی سے جب بھی سوال کیا جاتا کہ اگر آپ مہدی یا مسیح موعود ہیں تو احادیث کی رو سے آپ کو حج کرنا چاہیے۔ اس پر مرزا قادیانی نے متفقہ علیہ احادیث مبارکہ کی مختلف تاویلات کیں۔ جب اس سے بھی کام نہ بنا تو کہہ ڈالا کہ میرے (مہدی اور مسیح موعود ہونے کے) دعوے کی بنیاد حدیث نہیں بلکہ خود میری وحی ہے۔ مزید کہا کہ جو حدیث میری وحی کے مطابق ہے، وہ درست ہے اور جو نہیں، اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے۔ (نعوذ باللہ) بعدازاں مرزا نے یہ تسلیم کیا کہ مسیح موعود کے حج پر جانے کی حدیث موجود ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس حدیث مبارکہ کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے الٹا سوال کرنے والوں سے پوچھا:


(1) ”آپ اس سوال کا جواب دیں کہ مسیح موعود جب ظاہر ہوگا تو کیا اوّل اس کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ مسلمانوں کو دجال کے خطرناک فتنوں سے نجات دے یا یہ کہ ظاہر ہوتے ہی حج کو چلا جائے۔ اگر بموجب نصوصِ قرآنیہ و حدیث یہ پہلا فرض مسیح موعود کا حج کرنا ہے نہ دجال کی سرکوبی تو وہ آیات اور احادیث دکھلانی چاہئیں تا ان پر عمل کیا جائے۔”

(ایام الصلح ص 190 مندرجہ روحانی خزائن ج 14 ص 416 از مرزا قادیانی)


سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مرزا قادیانی نے مسلمانوں کو دجال کے خطرناک فتنوں سے نجات دلا دی تھی؟اس سلسلہ میں مرزا قادیانی مزید لکھتا ہے:
(2) ”ہمارا حج تو اس وقت ہوگا جب دجال بھی کفر اور دجل سے باز آ کر طوافِ بیت اللہ کرے گا۔”

(ایام الصلح ص 190 مندرجہ روحانی خزائن ج 14 ص 416 از مرزا قادیانی)


مذکورہ تحریر مرزا قادیانی کے ذہن کی پیداوار ہے۔ اس سے مرزا قادیانی کا کذب اور دجل کھل کر واضح ہو گیا ہے۔ یہ حدیث شریف پر افتراء ہے۔ احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب دجال کا خروج ہوگا اور وہ ہر جگہ جا سکے گا لیکن جب وہ مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے حرمین شریفین کی حفاظت کے لیے مامور ہوں گے اور وہ دجال کو داخل نہیں ہونے دیں گے۔ جبکہ مرزا قادیانی کہتا ہے کہ دجال بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ بعدازاں دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ آپصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قتل دجال سے فراغت کے بعد عیسیٰ علیہ السلام مکہ مکرمہ آئیں گے حج یا عمرہ یا دونوں کریں گے، بیت اللہ سے فارغ ہونے کے بعد روضہ طیبہ پر آئیں گے، وہ سلام کہیں گے میں سنوں گا میں جواب دوں گا وہ سنیں گے۔
حج پر نہ جانے کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک اور موقع پر مرزا قادیانی نے کہا:
(3) ”میرا پہلا کام خنزیروں کا قتل اور صلیب کی شکست ہے۔ ابھی تو میں خنزیروں کو قتل کر رہا ہوں۔ بہت سے خنزیر مر چکے ہیں اور بہت سے سخت جان ابھی باقی ہیں۔ ان سے فرصت اور فراغت تو ہو لے۔”

(ملفوظات ج 3 ص 372 از مرزا قادیانی)


مرزا قادیانی اپنے اندر کا خنزیر تو قتل نہ کر سکا، باقی خنزیروں کو قتل کرنا چہ معنی دارد؟ایک مرتبہ پھر مرزا قادیانی کو حج پر نہ جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا:
(4) ”تمام مسلمان علماء اوّل ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔”

(ملفوظات ج 9 ص 325 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کے حج پر نہ جانے کا یہ نہایت عیارانہ اور ملحدانہ جواب ہے۔ کیا یہ جواب ایک ایسے شخص کے شایانِ شان ہے جو مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویدار ہے؟ جب یہ جوابات بھی لوگوں کو مطمئن نہ کر سکے تو اس نے صاف صاف لفظوں میں حج کرنے کو اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دے ڈالا اور ساتھ ہی (قادیانی جماعت کی پالیسی کے مطابق کہ جب بھی کوئی شخص مرزا قادیانی پر اعتراض کرے تو اس کے جواب میں فوراً نبی کریمۖ پر عیسائیوں اور یہودیوں کی طرف سے کیے گئے اعتراضات پیش کر دیے جائیں) شان رسالتۖ میں توہین کرتے ہوئے الزام جڑ دیا کہ انھوں نے تیرہ سال مکہ میں رہتے ہوئے حج نہیں کیا۔ مرزا قادیانی کی ہرزہ سرائی ملاحظہ فرمائیں:
(5) ” اب اگر ہم حج کو چلے جائیں تو گویا اس خدا کے حکم کی مخالفت کرنے والے ٹھہریں گے اور من استطاع الیہ سبیلاً کے بارے میں کتاب حج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو حج ساقط ہے۔ حالانکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہوتی ہیں۔ مامورین کا اوّل فرض تبلیغ ہوتا ہے۔ آنحضرتۖ 13 سال مکہ میں رہے آپۖ نے کتنی دفعہ حج کیے تھے؟ ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا۔”

(ملفوظات ج 5 ص 388 از مرزا قادیانی)


اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا قادیانی تبلیغ اسلام میں مصروف تھا، اس لیے حج نہ کر سکا۔ اس کا یہ عذر بے بنیاد ہے۔ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں ایک اللہ کی اطاعت اور دوسرے انگریز حکومت کی اطاعت و تابعداری۔ وہ ان خیالات کی تبلیغ و تشہیر میں پوری عمر لگا رہا۔ حج کے موقع پر مرزا قادیانی کی تقریر سے لاکھوں لوگ مستفید ہوتے اور وہ مرزا قادیانی کی طرح انگریز کے خیر خواہ بن جاتے۔ باقی رہی یہ بات کہ حضور نبی کریمۖ نے 13 سال تک مکہ میں رہتے ہوئے حج نہیں کیا، انتہائی بے بنیاد اور احمقانہ بات ہے۔ اس وقت حج کے احکامات نازل نہیں ہوئے تھے اور یہ حکم مدینہ طیبہ میں نازل ہوا۔ آپۖ نے ایک مرتبہ حج محض اس لیے ادا فرمایا تاکہ تاقیامت امت مسلمہ پر زیادہ بوجھ نہ پڑے ۔مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد ایم اے اپنے باپ کے حج ادا نہ کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
(6) ”ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حج نہیں کیا۔ اعتکاف نہیں کیا۔ زکوٰة نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حج نہ کرنے کی تو خاص وجوہات تھیں کہ شروع میں آپ کے لیے مالی لحاظ سے انتظام نہیں تھا۔”

(سیرت المہدی ج 3 ص 119 از مرزا بشیر احمد ایم اے)


لیجئے مرزا بشیر احمد نے ایک نئی توجیہ بیان کی ہے کہ چونکہ مرزا قادیانی مالی لحاظ سے استطاعت نہ رکھتا تھا، اس لیے حج ادا نہ کیا۔ یہ بات بھی بالکل بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر مرزا قادیانی کی مالی حیثیت ایسی نہ تھی تو وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ میں مخالفین کو 10 ہزار روپے کا چیلنج کہاں سے دے رہا تھا؟ اپنے آپ کو رئیس قادیان کیسے لکھتا رہا؟ اگر وہ کنگلا تھا تو دس ہزار روپے کا چیلنج دینا اور خود کو رئیس قادیان لکھنا کیا دھوکے باز کی نشانی نہیں ہے؟ مرزا قادیانی نے اپنی آمدن کے بارے میں اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
(7) ”ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھا جو قادیان جیسے ویران گائوں میں زاویۂ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے اپنی پیشگوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور ایسی متواتر فتوحات سے مالی مدد کی کہ جس کا شکریہ بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں۔ مجھے اپنی حالت پر خیال کر کے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ ماہوار بھی آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے، اسی نے ایسی میری دستگیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آ چکا ہے اور شاید اس سے زیادہ ہو اور اس آمدنی کو اس سے خیال کر لینا چاہیے کہ سالہا سال سے صرف لنگرخانہ کا ڈیڑھ ہزار روپیہ ماہوار تک خرچ ہو جاتا ہے یعنی اوسط کے حساب سے اور دوسری شاخیں مصارف کی یعنی مدرسہ وغیرہ اور کتابوں کی چھپوائی اس سے الگ ہے۔ پس دیکھنا چاہیے کہ یہ پیشگوئی یعنی الیس اللہ بکافٍ عبدہ کس صفائی اور قوت اور شان سے پوری ہوئی۔ کیا یہ کسی مفتری کا کام ہے یا شیطانی وساوس ہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ اس خدا کا کام ہے جس کے ہاتھ میں عزت اور ذلت اور ادبار اور اقبال ہے۔ اگر میرے اس بیان کا اعتبار نہ ہو تو بیس برس کی ڈاک کے سرکاری رجسٹروں کو دیکھو تا معلوم ہو کہ کس قدر آمدنی کا دروازہ اس تمام مدت میں کھولا گیا ہے حالانکہ یہ آمدنی صرف ڈاک کے ذریعہ تک محدود نہیں رہی۔ بلکہ ہزارہا روپیہ کی آمدنی اس طرح ہی ہوتی ہے کہ لوگ خود قادیان میں آ کر دیتے ہیں اور نیز ایسی آمدنی جو لفافوں میں نوٹ بھیجے جاتے ہیں۔” (اگرچہ منی آرڈروں کے ذریعہ ہزارہا روپے آ چکے ہیں۔ مگر اس سے زیادہ وہ ہیں جو خود مخلص لوگوں نے آ کر دیے اور جو خطوط کے اندر نوٹ آئے اور بعض مخلصوں نے نوٹ یا سونا اس طرح بھیجا جو اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا اور مجھے اب تک معلوم نہیں کہ ان کے نام کیا کیا ہیں۔”

(حقیقت الوحی ص 212 مندرجہ روحانی خزائن ج 22 ص 221 از مرزا قادیانی)


اس زمانہ میں ایک روپے کا 16 کلو گوشت ملتا ہے۔ قارئین کرام اس حساب سے خود اندازہ لگا لیں کہ مرزا قادیانی کے پاس کس قدر روپیہ تھا۔
ایک موقع پر مرزا قادیانی پر پھر اعتراض وارد ہوا کہ آپ حج کے لیے کیوں نہیں جاتے؟ تو اس نے کہا کہ مجھے جان کا خطرہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ موقع پر لوگ مجھے قتل کر دیں۔ لہٰذا جان بچانی فرض ہے۔جبکہ مرزا قادیانی کا الہام ہے: ”میں قتل کے منصوبوں وغیرہ سے بچایا جائوں گا۔” اپنے الہام کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مرزا قادیانی کے پاس بہترین موقع تھا جسے اس نے ضائع کر دیا۔ اور پھر مرزا قادیانی کایہ بھی کہنا ہے:
(8) ”اور ہم ایسے نہیں ہیں کہ کوئی موت ہمیں خدا کی راہ سے ہٹا دے اور اگرچہ خدا کی راہ میں ہم مجروح ہو جائیں یا ذبح کیے جائیں۔”

(براہین احمدیہ حصہ پنجم (ضمیمہ) ص 153 مندرجہ روحانی خزائن ج 21 ص 321 از مرزا قادیانی)


مرزا قادیانی کو اگر اپنے مذکورہ الہامات پر یقین ہوتا تو وہ فوراً حج ادا کرنے مکہ مکرمہ روانہ ہو جاتا مگرآخر میں مرزا قادیانی نے حج پر نہ جانے کی وجہ خود اپنی زبانی بیان کی ہے:
(9) ”آنحضرتۖ نے فرمایا تھا کہ دجال کافر ہوگا اور میں مسلمان ہوں اور فرمایا تھا کہ دجال مدینہ اور مکہ میں داخل نہیں ہو سکے گا۔”

(ازالہ اوہام ص 211 مندرجہ روحانی خزائن ج 3 ص 211 از مرزا قادیانی)


مرزا قادیانی نے اپنے حج پر نہ جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے اپنے آپ کو مختلف تادیلات، بے بنیاد دلائل اور کتمان حق کے ذریعے خود کو مثیل دجال ثابت کر دیا ہے، اس لیے کہ وہ بھی مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہو سکا۔