Language:

قادیانیت کا اصل چہرہ – مجید نظامی

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کا سرکاری مذہب اس کے آئین کی رو سے اسلام قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں عقیدۂ توحید اور عقیدۂ ختم نبوت بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ ختم نبوت کا یہ عقیدہ تاریخ کے ہر دور میں، ہر مسلک کے مسلمانوں کے درمیان متفقہ طور پر موجود رہا ہے۔ اجماع امت کے حامل مسلمانوں کے اس عقیدے سے انحراف نہ صرف قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ اتحادِ امت کو پارہ پارہ کرنے کی مذموم کوشش کے مترادف بھی ہے۔ اس عقیدہ کا تحفظ وطن عزیز کی جغرافیائی حدود کی حفاظت سے بھی زیادہ لازمی ہے۔ یوں تو لاتعداد مسلمانوں نے تحفظِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دیا ہے مگر میں یہاں مفکر پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کے ان کلمات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو سے بحث کے دوران ادا کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان لائے بغیر کسی مسلمان کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا اور اب جو کوئی ، کسی بھی قسم کا دعویٰ نبوت کرتا ہے، وہ جھوٹا، کاذب، کافر اور مرتد ہے‘‘۔ ربوہ والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے نعوذ باللہ مرزا صاحب کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی ختم نبوت کے قائل ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور یہی وجہ ہے کہ پہلے قادیان اور اب ربوہ میں صرف ’’خلیفے‘‘ آرہے ہیں کوئی نبی نہیں آیا۔ لاہوری حضرات مرزا صاحب کو نبی نہیں صرف مصلح قرار دیتے ہیں حالانکہ مرزا صاحب نے دعویٰ نبوت کیا تھا اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے لوگ بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ جھوٹی نبوت کے دعویدار کو مصلح ماننے والے بھی انہی کے بھائی بند ہوسکتے ہیں اور انہی کی صف میں شامل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مسئلہ دورِ غلامی کی یادگار ہے۔ اگر ہم غلام نہ ہوتے تو یہ مسئلہ کبھی پیدا نہ ہوتا۔ گذشتہ تیرہ سو سال میں کسی بھی آزاد اسلامی یا مسلمان ملک میں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ کسی بھی اسلامی یا مسلمان ملک میں کسی دیوانے یا پاگل نے بھی دعویٰ نبوت کی جرأت نہیں کی۔ ایران میں بہائی مذہب کے بانی کا جو حشر ہوا، اس سے کون ناواقف ہے؟ بہاء اللہ نے خود ہی اپنے آپ کو اسلام سے خارج کرلیا۔ مسلمان کہلانے کی اسے بھی جرأت نہ ہوئی لیکن ایران نے اس کے باوجود اسے اور اس کے مقلدین کو برداشت نہ کیا۔ ہمیں افسوس ہے کہ آزادی کے بعد 26، 27 سال تک ہم نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش نہ کی، حالانکہ ہم نے یہ ملک اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اگر ختم نبوت پر ہمارا جزوایمان ہے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین ماننے کے بعد ختم نبوت کی مختلف تاویلیں کرتے ہوئے دعویٰ نبوت کرنے والے اور اس جھوٹے نبی کی امت کے لیے پاکستان میں کیا جگہ رہ جاتی ہے؟ یہ پنجاب کی بدقسمتی تھی کہ یہ پودا اس سرزمین میں ہی لگ سکا اور اس نے یہیں نشوونما پائی۔ یہ پنجابیوں کی مذہب کے معاملے میں سادہ لوحی اور اسلام کی طرف سے عطاکردہ فراخدلی کا نتیجہ تھا کہ انگریز کا یہ خودکاشتہ پودا تناور درخت بن گیا۔

قادیانیوں کی امنگوں اور آرزوئوں کا مرکزقادیان ہے جو بھارت میں واقع ہے۔ یہ تصور ان کا جزوایمان ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور واپس قادیان جائیں گے۔ ان کے قادیان جانے کے دو ہی طریقے ہوسکتے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ قادیانی حضرات مشرقی پنجاب کو بزور بازو فتح کر کے قادیان پہنچیں، یہ بڑی ناقابل عمل سی بات ہے، ویسے بھی قادیانی حضرات جہاد پر یقین نہیں رکھتے اور ان سے توقع نہیںکی جاسکتی کہ وہ لڑ کر مشرقی پنجاب فتح کرسکیں۔ دوسرا ذریعہ اکھنڈ بھارت کا ہے یعنی مغربی پاکستان بھی خدانخواستہ بھارت کا حصہ بن جائے یا پنجاب اور تین پاکستانوں میں تقسیم ہوجائے۔ جنہیں بھارت کی زیرِ سرپرستی بنگلہ دیش جیسا درجہ حاصل ہوجائے۔ ہمارے خیال میں یہ صورت کسی بھی باغیرت پاکستانی کو پسند نہیں ہوگی۔

قادیانیت کی تاریخ سے شناسا لوگوں کو علم ہوگا کہ قادیانیت کی تحریک کا واحد مقصد دنیا کے مسلمانوں کو احمدی بنانا تھا۔ وہ ہندوستان کو اس لیے اکھنڈ رکھناچاہتے تھے کہ ’’وسیع بیس‘‘ سے اس مقصد کے لیے کام کیا جائے۔ وہ برصغیر کی تقسیم کو عارضی سمجھتے تھے۔ ان کے عزائم کی تصدیق قادیانیوں کے ترجمان روزنامہ الفضل قادیان کے 15 اپریل 1947ء کے اس شمارے سے بخوبی ہوجاتی ہے جس میں قادیانی جماعت کے دوسرے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کا سرظفر اللہ چوہدری کے بھتیجے کے نکاح کے موقع پر خطبہ شائع ہوا تھا۔ اس خطبہ میں قادیانی جماعت کے سربراہ نے بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ

’’ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہندو مسلم سوال اٹھ جائے اور ساری قومیں شیر وشکر ہو کر رہیں تاکہ ملک کے حصے بخرے نہ ہوں۔۔۔ ممکن ہے عارضی طور پر کچھ افتراق پیدا ہو اور دونوں قومیں جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہوگی اور ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ جلد دور ہوجائے۔ بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیروشکر رہیں۔‘‘

سماجی اور سیاسی اعتبار سے یہ فرقہ خود کو سواد اعظم سے الگ تصور کرتا ہے۔ واقعات کے لحاظ سے یہ گروہ برطانیہ، اسرائیل اور بھارت کے ففتھ کالمسٹ کی حیثیت رکھتا ہے جو پاکستان میں سرگرم عمل ہے اور اس کی وفاداری بھی مشکوک ہے۔ انھوں نے تقسیم ہند کے بعد سے جان بوجھ کر اپنی جماعت کا ایک حصہ قادیان میں متعین کررکھا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے کام لیا جائے۔ قادیانی حضرت خود ہی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ سمجھتے ہیں، وہ مسلمانوں کو اپنے میں سے نہیں سمجھتے، ان کے ساتھ شادی بیاہ نہیں کرتے، ان کی نماز اور جنازے میں شرکت نہیں کرتے۔ ان کی دعا میں ان کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر شامل ہونا پسند نہیں کرتے۔ ایسے طرز عمل کے بعد انہیں بطور مسلمان وہ تمام مراعات حاصل کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے جو انہیں دفاعی اور سول ملازمتوں میں میسر ہیں یا بینکنگ، صنعت اور زندگی کے دیگر تمام دوسرے شعبوں میں حاصل ہیں۔

قادیانی جماعت میں سے زیادہ پڑھا لکھا اور روشن خیال سرظفر اللہ چوہدری تھے لیکن انہوں نے بھی بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کرنے کی بجائے غیر مسلم سفیروں کے ساتھ زمین پر بیٹھنا پسند کیا تھا اور جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ وزیرِ خارجہ ہیں لیکن جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، اس کی وجہ کیا ہے؟اس پر سر ظفر اللہ خاں نے کہا کہ ’’مجھے کافر حکومت کا مسلمان وزیر خارجہ سمجھ لیا جائے یا مسلمان حکومت کا کافر وزیرِ خارجہ۔‘‘ عقیدہ کے لحاظ سے اس سے بڑھ کر کسی کی پختہ زناری اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس طرح انہوں نے تاریخ میں یہ شہادت ریکارڈ کروائی کہ مسلمانوں کا مذہب الگ ہے اور قادیانی ان سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اس گروہ کو یہودیت کا چربہ قرار دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:’’کسی مذہبی تحریک کی اصل روح ایک دن میں نمایاں نہیں ہوجاتی۔ اچھی طرح ظاہر ہونے کے لیے برسوں چاہئیں۔ تحریک کے دو گروہوں کے باہمی نزاعات اس امر پر شاہد ہیں کہ خود ان لوگوں کو جو بانی تحریک کے ساتھ ذاتی رابطہ رکھتے تھے، معلوم نہ تھا کہ تحریک آگے چل کر کس راستہ پر پڑ جائے گی؟ ذاتی طور پر میں اس تحریک سے اس وقت بیزار ہوا تھا۔ جب ایک نئی نبوت۔۔۔ بانی اسلام کی نبوت سے اعلیٰ نبوت۔۔۔۔ کا دعویٰ کیا گیا اور تمام مسلمانوں کو کافر قرار دیا گیا۔ بعد میں یہ بیزاری بغاوت کی حد تک پہنچ گئی ، جب میں نے تحریک کے ایک رکن کو اپنے کانوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا کلمات کہتے سنا۔ درخت جڑ سے نہیں، پھل سے پہچانا جاتا ہے۔‘‘                                                                                                      (’’سٹیٹسمین کے جواب میں‘‘ حرف اقبال از لطیف شیروانی)

علامہ صاحب مزید فرماتے ہیں :  ’’ثانیاً ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام سے متعلق ان کے رویہ کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بانی تحریک نے ملت اسلامیہ کو سڑے ہوئے دودھ سے تشبیہ دی تھی اور اپنی جماعت کو تازہ دودھ سے اور اپنے مقلدین کو ملت اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا تھا۔ علاوہ بریں ان کا بنیادی اصولوں سے انکار، اپنی جماعت کا نیا نام (احمدی)، مسلمانوں کی قیام نماز سے قطع تعلق، نکاح وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان سب سے بڑھ کر یہ اعلان کہ دنیائے اسلام کافر ہے، یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دال ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ اسلام سے اس سے کہیں دور ہیں، جتنے سکھ، ہندوئوں سے، کیونکہ سکھ ہندوئوں سے باہمی شادیاں کرتے ہیں۔ اگرچہ وہ ہندوئوں میں پوجانہیں کرتے۔‘‘                                                                                                                                (’’سٹیٹسمین کے جواب میں‘‘ حرف اقبال از لطیف شیروانی)

بھٹو حکومت کے دور میں ستمبر1974ء میں پارلیمنٹ میں بڑی مفصل بحث کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کے پیروکاروں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔ بھٹو حکومت نے اس طرح نوے سالہ پرانا مسئلہ حل کرنے کی سعادت حاصل ہونے کا بھی دعویٰ کیا تھا۔ یہ دعویٰ بے جا بھی نہیں تھا لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد مروجہ تعزیرات میں ترمیم کے لیے جن قانونی اقدامات کی ضرورت تھی، ان کے اہتمام کو بوجوہ موخرکردیا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس زمانے میں قومی اسمبلی میں ایک نجی مسودہ قانون بھی پیش کیا گیا لیکن اسے دبا دیا گیا تھا اور اس طرح مسلمانوں کے اس ضمن میں یہ مطالبات پورے نہ ہوسکے اور دس سال تک وجہ اضطراب بنے رہے۔ بعد ازاں حکومت پاکستان کی طرف سے امتناع قادیانیت کے نام سے نافذ کیے جانے والے آرڈیننس سے قانونی اقدامات پورے ہوگئے۔ اس آرڈیننس کے نفاذنے مسلمانوں کے مطالبہ، توقع اور خواہش پورا کرنے والے قانونی اور منطقی اقدام کا اہتمام کیا۔

قادیانیوں کے اسلام اور پاکستان دشمنی پر مبنی عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے جہاں قانونی و آئینی اقدامات ضروری ہیں وہاں علمی محاذ پر ان کا تعاقب کرنا بھی بہت اہم ہے۔