Language:

بعض ہم وطنوں کی اسلامی رواداری اورڈاکٹر عبدالسلام

ہمارے جدید طبقہ کی رائے یہ ہے کہ عبدالسلام قادیانی کی سائنسی مہارت کی تعریف کرنی چاہئے اور اس کے عقیدہ و مذہب سے صرف نظر کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہمارے ملک کے ایک معروف ادارے سے شائع ہونے والے پرچے میں ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کی تعریف میں بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ ایک درد مند مسلمان نے اس پر ادارہ کے سربراہ کو خط لکھا، پاکستان کی اس معروف ترین شخصیت کی جانب سے اس کے خط کا جو جواب ملا، اس میں مندرجہ بالا نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔ ضروری تمہید کے بعد جوابی خط کا متن یہ ہے:’’ ڈاکٹر عبدالسلام کے سلسلے میں آپ نے جو لکھا ہے اس میں جذبات کی شدت ہے۔ لیکن آپ سوچیں تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں روادار اور کشادہ دل ہونا چاہئے۔ غیر ملکیوں اور غیر مذہب کے سائنس دانوں اور دوسرے بہت سے ماہرین کے متعلق ہم روزانہ تحریریں پڑھتے رہتے ہیں۔ ان کی اچھی باتوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ان کے کارناموں کی قدر کرتے ہیں، ان کی ایجادات سے فائدہ اٹھاتے ہیں پھر ان کے متعلق دوسری تمام باتیں لکھتے ہیں لیکن یہ کہیں نہیںلکھتے کہ ان کا مذہب کیا ہے یا کیا تھا، کیوں کہ ہمیں اس سے غرض نہیں ہوتی ،ہم تو ان کی صرف ان باتوں سے سروکار رکھتے ہیں جو انہوں نے انسانوں اور دنیا کے فائدے کے لئے کئے۔ یقین ہے کہ آپ مطمئن ہوجائے گے۔ ‘‘

یہ نقہ نظر واقعی اسلامی فراخ قلبی کا مظہر ہے۔ اور ہم بھی تہہ دل سے اس کے حامی و مئوید ہیں لیکن اگر کوئی صاحب کمال اسلام کے مفادات کی جڑیں کاٹتا ہو اگر اس کے اور اس کی جماعت کے رویہ سے اسلامی ممالک کو خطرات لاحق ہوں۔ اگر وہ اپنے کمال کو اپنے باطل مذہب کی اشاعت کے لئے استعمال کرتا ہو تو اس کے کمال کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس سے لاحق خطرات سے قوم کو آگاہ کرنا بھی اہل فکر و نظر کا فریضہ ہونا چاہئے۔    ڈاکٹر عبدالسلام قادیانیت کا پرجوش داعی و مبلغ تھا۔ اس کی جماعت اور اس کا پیشوا ہمیشہ سے مسلمانوں کا حریف اور اعدائے اسلام کا حلیف رہا ہے۔ اور وہ پوری دنیا میں یہ جھوٹا شور و غوفا کرتا رہا ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں پر ظلم ہورہا ہے۔ کیا مسلمان کا ایسے دشمن کی تعریف کرنا، جس سے عالم اسلام کو خطرات ہوں، اسلامی عزت و حمیت کا مظہر ہے؟

مندرجہ بالا خط میں جس طبقہ کی نمائندگی کی گئی ہے ہمیں افسوس ہے وہ جوش رواداری میں اسلامی غیرت وحمیت کے تقاضوں کو پشت انداز کررہا ہے اور اس طبقہ میں تین قسم کے لوگ شامل ہیں۔اول: وہ ناواقف اور جاہل لوگ جو نہیں جانتے کہ قادیانیوں کے عقائد و نظریات کیا ہیں؟ اور نہ ان کو یہ پتہ ہے کہ قادیانیوں کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عداوت کے کیسے جذبات موجزن ہیں ۔دوسری قسم:  وہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے، جو ملحد ولادین ہے جس کو دین اور اہل دین سے بغض و نفرت ہے اور دین سے بیزاری اس کے نزدیک گویا فیشن میں داخل ہے وہ مذہب کی بنیاد پر افراد اور ملتوں کی تقسیم ہی کا قائل نہیں ۔۔ وہ مومن و کافر ایماندار اور بے ایمان اہل حق اور اہل باطل سب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا اور ایک ہی ترازو سے تولتا ہے ۔۔ اس کے نزدیک دین اور دینداری کا نام لینا ہی سب سے بڑا جرم ہے ۔تیسری قسم:  ان لوگوں کی ہے جو دین پسند کہلاتے ہیں۔ دینی موضوعات اور اصلاح معاشرہ پر بڑے بڑے مقالے تحریر فرماتے ہیں۔ بظاہر اسلام کے نقیب اور داعی نظر آتے ہیں لیکن ان کے نزدیک دین بس اسی نعرہ بازی اور مقالہ نگاری کا نام ہے۔ انہیں اپنی قومی و ملی مصروفیات کے ہجوم میں کبھی اہل دین اور اہل دل کی صحبت کا موقع نہیں ملا اس لئے ان کے حریم قلب میں دینی حمیت وغیرت کے بجائے مصلحت پسندی کا سکہ رائج ہے اور یہ حضرات بڑی معصومیت سے رواداری اور کشادہ دلی کا وعظ فرماتے رہتے ہیں ۔ لیکن ان کایہ سارا وعظ خدا اور رسول اور دین و ملت کے غداروں سے رواداری تک محدود ہے اگر ان کی ذاتی املاک کو کوئی شخص نقصان پہنچائے، ان کی اپنی عزت و ناموس پر حملہ کرے وہ رواداری کا سارا وعظ بھول جائیں گے۔ ان کی رگ حمیت پھڑک اٹھے گی ان کا جذبہ انتقام بیدار ہوجائے گا اور وہ اس موذی کو کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔ لیکن اگر کوئی خدا اور رسول کی عزت پر حملہ کرتا ہو، دین میں قطع وبرید کرتا ہو، اکابرامت پر کیچڑا چھا لتا ہو اس کے خلاف ان کی زبان و قلم سے ایک حرف نہیں نکلے گا، بلکہ یہ حضرات ایسے موذیوں کا تعاقب کرنے والوں کو درس رواداری دینے لگیں گے۔ اس ’’ دین پسند‘‘ طبقہ کو معلوم ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی خود کو ’’محمد رسول اللہ‘ کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قادیانی ٹولہ مرزا غلام احمد قادیانی کو محمد رسول اللہ مسیح موعود اور مہدی معہود مانتا ہے انہیں علم ہے قادیانی اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن اور خدا اور رسول کے غدار ہیں وہ باخبر ہیں کہ تمام قادیانی پاکستان کو، لعنتی سرزمین سمجھتے ہیں اور پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے بین الاقوامی سازشیں کررہے ہیں لیکن ان تمام امور کے باوجود یہ ’’ دین پسند ‘‘ طبقہ قادیانیوں کے حق میں رواداری کا درس دیتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی قومیں، جن میں مذکورہ بالا تین طبقات کی اکثریت ہو، وہ جلد یا بد یر تحلیل ہوکر رہ جاتی ہیں۔ خصوصاً تیسری قسم کے لوگ جو دینی حمیت و غیرت سے خالی، اور احساس خود تحفظی سے عاری ہوں وہ بہت جلد مقہور و محکوم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

جیسا کے اوپر عرض کیا گیا رواداری اور کشادہ دلی، کے ہم بھی قائل ہیں لیکن اس رواداری کا یہ مطلب نہیں کہ میرا باپ دنیا سے چلا جائے ، اور کل کو دوسرا شخص آکرکہے کہ میں تمہارا باپ دوسرا روپ لے کر آیا ہوں لہٰذا تمام حقوق پدری مجھ سے بجا لاؤ اور میں رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس موذی کو باپ تسلیم کرلوں ۔۔۔۔۔۔ نہیں! ۔۔۔۔۔۔ بلکہ اگر مجھ میں ذرا بھی انسانی غیرت ہوگی تو میں اس ناہنجار کے جوتے رسید کروں گا۔ اب اس بے غیرتی اوردیوثی کا تماشہ دیکھئے کہ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کا باوا مرزا غلام احمد قادیانی کہتا ہے کہ میں ’’ محمد رسول اللہ ‘‘ ہوں اور مسلمان کہلانے اور محمد رسول اللہؐ کو ماننے والے اس سے رواداری کا درس دیتے ہیں۔