Language:

حضرت علامہ علاؤ الدین صدیقی رحمۃ اللہ علیہ

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر، عظیم مفکر، شعلہ بیاں خطیب، لاجواب منتظم اور متبحر عالم دین حضرت علامہ علائو الدین صدیقیؒ جامع الصفات شخصیت کے حامل تھے۔ تحریک پاکستان میں ان کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ امت مسلمہ کے اتحاد و یگانت کے بڑے داعی اور علمبردار تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی دعوت دین اور خدمت اسلام کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ آپ نے تحریک ختم نبوت 1953ء میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہر صوبہ اور علاقہ میں ختم نبوت کانفرنسوں اور اجتماعات میں اپنی شعلہ نوا تقریروں سے عوام کے دلوں کو گرمایا اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبے کو بیدار کیا۔

تحفظ ختم نبوت کی کانفرنسوں میں ایمان پرور تقریریں کر کے بارگاہ رسالتصلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔ وجہ تخلیق کائنات اور شاہکار منشائے ربانی حضور اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق کا نتیجہ تھا کہ حق بات برمحل کہہ دیتے تھے۔ 1953ء میں تحریک ختم نبوت ملک گیر صورت اختیار کر گئی۔ بے شمار طلبہ صدائے اللہ اکبر پر پروانہ وار فدا ہوتے چلے گئے اور لاتعداد نوجوانانِ وطن نے جام شہادت نوش کیا۔ لاہور میں مارشل لاء نافذ ہو گیا، جمعہ کا دن تھا، جناب علامہ علائو الدین صدیقیؒ پہلے سے ہی مسجد شاہ چراغ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے ختم نبوت کے موضوع پر حد درجہ پر جوش خطاب شروع کر دیا کہ اتنے میں اچانک گھوں گھوں کی سی آواز سنائی دی، یہ آواز جنرل اعظم خان کی مشین گنوں سے مسلح جیپ کی تھی جو جی پی او کے چوک میں آ کر رکی تھی۔ جناب علامہ صدیقیؒ خطابت میں معمول سے زیادہ جوش میں تھے۔ حاضرین نے نعرہ ختم رسالت صلی اللہ علیہ وسلم بلند کیا۔ اس وقت فضا بالکل ساکن تھی۔ اس آن علامہ صدیقی نے جنرل اعظم کو مخاطب کر کے کہا:

’’تمہاری بندوق کی گولیاں اگر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگانے والوں کے سینوں کو چھید سکتی ہیں تو پہلے میرے سینے پر گولی لگنی چاہیے۔‘‘

کچھ توقف کے بعد جنرل اعظم کی جیپ چلی گئی۔ لاہور کی خون آلود سڑکیں اہل لاہور کو خوب یاد ہیں۔ شہدائے ختم نبوت کے خون کا نقشہ آج بھی زندہ جاوید ہے اور ابدالآباد تک زندہ رہے گا۔

ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ جناب الطاف حسن قریشی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

’’یہ غالباً 1953ء کی سردیوں کا ذکر ہے۔ میں اُن دنوں ایم اے علوم اسلامیہ کا طالب علم تھا۔ ہماری کلاسیں دن میں دو بار لگتی تھیں۔ ایک صبح سات بجے سے لے کر نو بجے اور پھر شام کو چار بجے سے لے کر رات کے آٹھ نو بجے تک اور اگر ہمارے استادِ مکرم علامہ علائوالدین صاحب صدیقی کسی اہم مسئلے پر گفتگو فرماتے، تورات کے گیارہ بارہ بھی بج جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار جھوٹے مدعیان نبوت پر بات چل نکلی تو جناب علامہ نے پوری اسلامی تاریخ سمیٹ کر رکھ دی اور آخر میں بڑے دلدوز لہجے میں فرمایا:

’’تاریخ کے کسی بھی حصے میں امت مسلمہ نے جھوٹے نبی کو برداشت نہیں کیا اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھی جب تک اپنے آپ کو جھوٹے نبی کے ناپاک وجود سے پاک نہیں کر لیا، لیکن اہل پنجاب کی بے غیرتی نے پوری اسلامی تاریخ کی غیرت کو مجروح کیا۔ ہائے! دیوانوں کو غیرت نہ آئی۔‘‘

اُس رات ایک بج گیا تھا اور شدید سردی کے باوجود ہمیں غیرت کے پسینے آتے رہے۔‘‘

(ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور جولائی 1968ئ)

ناز کیا اس پہ کہ بدلہ ہے زمانے نے تجھے

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں