Language:

مرزا کادیانی کی تضادبیانیاں حصہ سوم

ایک شاعر نے کہا تھا:

’’بات وہ کہیے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں                 کوئی تو پہلو رہے بات بدلنے کے لیے ‘‘

آنجہانی مرزا قادیانی اس شعر کی مکمل تصویر تھا۔ گویا شاعر نے یہ شعر مرزا قادیانی ہی کے لیے کہا تھا۔ آپ مرزا قادیانی کے کسی بیان یا کسی بھی تحریر پر غور کریں تو وہ اس شعر کی مکمل تفسیر یا گرگٹ کی تصویر نظر آئے گا۔ آپ اس مضمون کو پڑھیں اور غور فرما کر خود فیصلہ کریں گے کہ آنجہانی مرزا قادیانی  ہر بات میں متضاد رائے رکھتا تھا۔ حالانکہ اس کا دعویٰ تھا:

(1)        :’’اعلموا ان فضل اللہ معی وان روح اللہ ینطق فی نفسی‘‘    ترجمہ: ’’جان لو کہ اللہ کا فضل میرے ساتھ ہے اور اللہ کی روح میرے ساتھ بول رہی ہے۔‘‘                                                                       (انجام آتھم صفحہ 176 روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 176 از مرزا قادیانی)

صفحات کی کمی کے پیش نظر مرزا قادیانی کی تحریروں سے صرف چند حوالے پیش خدمت ہیں جن میں مکمل تضاد پایا جاتا ہے۔ پہلے تضادبیانی کے متعلق مرزا قادیانی کی ’’قیمتی آرا‘‘ ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں وہ خود اپنے دام میں کس طرح گرفتار ہوا ہے۔

(2)دو متضاد اعتقاد  :’’کوئی دانشمند اور قائم الحواس آدمی ایسے دو متضاد اعتقاد ہرگز نہیں رکھ سکتا۔‘‘

(ازالہ اوہام صفحہ 239 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 220 از مرزا ادیانی)

(3)جھوٹا’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘

(براہین احمدیہ ضمیمہ حصہ پنجم صفحہ 111 مندرجہ روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 275 از مرزا قادیانی)

(4)مخبوط الحواس انسان’’ہر ایک کو سوچنا چاہیے کہ اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘                                              (حقیقتہ الوحی صفحہ 191 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 191 از مرزا قادیانی)

(5)دو متناقض باتیں’’ایک دل سے دو متناقض باتیں نکل نہیں سکتیں کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘                                                                                                             (ست بچن ص 31روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 143 )

(6)پاگل، مجنوں یا منافق  ’’کسی سچیار اور عقلمند اور صاف دل انسان کی کلام میں ہرگز تناقض نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی پاگل اور مجنوں یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو، اس کا کلام بے شک متناقض ہو جاتا ہے۔‘‘

                                                                           (ست بچن صفحہ 30 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 142 از مرزا قادیانی)

مرزا قادیانی کے الفاظ میں مذکورہ بالا اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس انسان کے کلام (تحریر) میں تناقض (تضاد) ہوتا ہے، وہ پاگل، منافق، مخبوط الحواس اور جھوٹا ہوتا ہے۔ آئیے مرزا قادیانی کے خود اپنے قائم کردہ معیار کے مطابق اس کی تحریریں ملاحظہ فرمائیں:

انگریزی:

پہلا موقف:(7)انگریزی نہیں آتی:’’بعض انگریزی الہامات ہیں اور میں انگریزی نہیں جانتا۔ اس کوچہ سے بالکل ناواقف ہوں ایک فقرہ تک مجھے معلوم نہیں مگر خارقِ عادت طور پر مندرجہ ذیل الہامات ہوئے۔ آئی لو یو۔ آئی ایم وِدْ یو۔ آئی شل ہیلپ یو۔ آئی کین دیٹ آئی وِل ڈو۔ وی کین ویٹ وی وِل ڈو۔ صفحہ 480، 481۔ گاڈ از کمنگ بائی ہز آرمی۔ صفحہ 484۔ ہی از وِدْ یو ٹو کل اینیمی۔ صفحہ 484۔ دی ڈیز شل کم دین گاڈ شیل ہیلپ یو گلوری بی ٹو دس لارڈ۔ گارڈ میکراوف ارتھ اینڈہون۔ صفحہ 522۔ دوہ آل مین شڈ بی اینگری بٹ گاڈ از ود یو ہی شیل ہیلپ یو۔ وارڈس آف گاڈکین ناٹ ایکس چینج۔ صفحہ 554۔ آئی لو یو۔ آئی شیل گو یو ئِ لارج پارٹی آف اسلام۔‘‘

                                                                     (نزول المسیح صفحہ 140 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 516 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(8)انگریزی پڑھی تھی:’’اس زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدارس تھے۔ (اب اس عہدہ کا نام ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ہے) کچہری کے ملازم منشیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اور ایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘                                                                    (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ 155 از مرزا بشیر احمد ایم اے ابن مرزا قادیانی)

میرے استاد:

پہلا موقف:(9)میرے کئی استاد تھے:   ’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے، وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا، اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘                                (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 179 تا 181 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(10)میرا کوئی استاد نہیں:’’ہمارے نبیﷺ نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا مگر حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ مکتبوں میں بیٹھے تھے اور حضرت عیسیٰ ؑ نے ایک یہودی استاد سے تمام توریت پڑھی تھی۔ غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبیﷺ نے کسی استاد سے نہیں پڑھا، خدا آپ ہی استاد ہوا اور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اقراء کہا۔ یعنی پڑھ۔ اور کسی نے نہیں کہا۔ اس لیے آپ نے خاص خدا کے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی اور دوسرے نبیوں کے دینی معلومات انسانوں کے ذریعہ سے بھی ہوئے۔ سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہوگا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے۔ یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے۔‘‘   (ایام الصلح صفحہ 168 مندرجہ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 394 از مرزا قادیانی)

الہام:

پہلا موقف:(11)الہام اپنی زبان میں:’’یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا کیونکہ اس میں تکلیف مالا یطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘                                                                                 (چشمۂ معرفت صفحہ 209 روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 218 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(12)الہام دوسری زبانوں میں:’’بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘                                     (نزول المسیح صفحہ 59 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 435 از مرزا قادیانی)

الہامی کتابیں:

پہلا موقف:(13)الہامی کتابوں میں تبدیلی نہیں ہوئی:        ’’یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف مبدّل ہیں۔ ان کا بیان قابل اعتبار نہیں۔ ایسی بات وہی کہے گا جو خود قرآن شریف سے بے خبر ہے۔‘‘                           (چشمۂ معرفت صفحہ 75 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 83 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(14)الہامی کتابیں تبدیل ہو چکی ہیں:          ’’ہر ایک شخص جانتا ہے کہ قرآن شریف نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ انجیل یا توریت سے صلح کرے گا بلکہ ان کتابوں کو محرف مبدّل اور ناقص اور ناتمام قرار دیا ہے۔‘‘

(دافع البلاء صفحہ 19 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 239 از مرزا قادیانی)

 (15)     ’’سچ تو یہ بات ہے کہ وہ کتابیں آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک ردّی کی طرح ہوچکی تھیں اور بہت جھوٹ اُن میں ملائے گئے تھے جیسا کہ کئی جگہ قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے کہ وہ کتابیں محرف مُبدل ہیں اور اپنی اصلیت پر قائم نہیں رہیں۔ ‘‘

                                                                     (چشمہ معرفت صفحہ 255 مندرجہ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 266 از مرزا قادیانی)

حضرت مسیح:

پہلا موقف:(16) حضرت مسیح متواضع، حلیم اور عاجز:’’حضرت مسیح تو ایسے خدا کے متواضع اور حلیم اور عاجز اور بے نفس بندے تھے جو انھوں نے یہ بھی روا نہ رکھا، جو کوئی ان کو نیک آدمی بھی کہے۔‘‘

                                                             (براہین احمدیہ صفحہ 104 (حاشیہ) مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 94 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقف:(17)حضرت مسیح شرابی، کبابی:’’یسوع اس لیے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتدا ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ خدائی کا دعویٰ شراب خواری کا ایک بدنتیجہ ہے۔‘‘

(ست بچن صفحہ 172 مندرجہ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 296 از مرزا قادیانی)

لُد:

پہلا موقف:(18)لُد ایک گائوں:’’پھر حضرت ابن مریم دجال کی تلاش میں لگیں گے اور لُدّ کے دروازہ پر جو بیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گائوں ہے اس کو جا پکڑیں گے اور قتل کر ڈالیں گے۔‘‘           (ازالہ اوہام صفحہ 220 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 209 از مرزا قادیانی)

دوسرا موقفـ:(19)لُد، بے جا جھگڑے کرنے والے:’’پھر آخر باب لُد پر قتل کیا جائے گا۔ لُد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑنے والے ہوں۔ ‘‘                                                                (ازالہ اوہام صفحہ 730 مندرجہ روحانی خزائن جلد 3، صفحہ 492، 493 از مرزا قادیانی)

تیسرا موقف:(20)لُد، سے مراد لدھیانہ : ’’اوّل بلدۃٍ بایعنی الناس فیھا اسمھا لدھیانہ۔ وھی اوّل ارضٍ قامت الاشرار فیھا للاھانۃ۔ فلما کانت بیعۃ المخلصین۔ حربۃ لقتل الدجال اللعین۔ باشاعۃ الحق المبین۔ اشیر فی الحدیث ان المسیح یقتل الدجال علٰی باب اللد بالضربۃ الواحدۃ فاللد ملخص من لفظہ لدھیانہ کما لا یخفی علی ذوی الفطنۃ۔‘‘                                                     (الہدی صفحہ 92 مندرجہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 341 از مرزا قادیانی)

(ترجمہ): ’’سب سے پہلے میرے ساتھ لودھانہ میں بیعت ہوئی تھی جو دجال کے قتل کے لیے ایک حربہ (ہتھیار) تھی۔ اسی لیے حدیث میں آیا ہے کہ مسیح موعود دجال کو باب لد میں قتل کرے گا۔ پس لد دراصل مختصر ہے لدھیانہ سے۔‘‘

قارئین کریم! آپ نے آنجہانی مرز قادیانی کی تضاد بیانیاںملاحظہ کیں۔ آپ شروع میں پڑھ چکے ہیں کہ مرزا قادیانی کے نزدیک دو متضاد باتیں رکھنے والا شخص مخبوط الحواس، پاگل یا منافق ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی کے اس فتویٰ کی روشنی میں اس کی اپنی حیثیت خود بخود واضح ہوجاتی ہے۔

            ؎          ہم بھی قائل تیری نیرنگی کے ہیں یاد رہے                    اوگرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے