Language:

قادیانیوں کے صد سالہ جشن پر پابندی – لمحہ بہ لمحہ رپورٹ

اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں قادیانیت کا فتنہ ایک ایسا فتنہ ہے‘ جسے اسلام و اہل اسلام کے لیے بلاشبہ خطرناک‘ مہلک اور بدترین قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فتنہ کے بانی‘ فتان اعظم‘ مرزا قادیانی آنجہانی نے 23 مارچ 1889ء کو لدھیانہ (بھارت) میں اس فتنہ کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ اس فتنہ کے سو سال پورے ہونے پر قادیانی 23 مارچ 1989ء کو ’’صد سالہ جشن‘‘ منانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انہوںنے اپنے پاکستانی مرکز ربوہ (اب چناب نگر)میں یہ انتظام کیا کہ:

(1)   پورے ربوہrabwah اور گردو نواح کی پہاڑیوں اور عمارتوں پر چراغاں کے لیے لائٹ اینڈ ڈیکوریشن پارٹیوں سے گوجرانوالہ‘ سرگودھا‘ فیصل آباد‘ راولپنڈی اور جھنگ وغیرہ سے سامان کرایہ پر لینے کے لیے معاہدے کیے۔ ہزاروں روپیہ ایڈوانس دیا اور اشٹام پیپرز پر تحریریں حاصل کیں۔

(2)   بجلی بند ہونے کی صورت میں وسیع پیمانہ پر جنریٹروں کا انتظام کیا۔

(3)   مٹی کے ’’دیئے‘‘ کئی ٹرکوں پر منگوائے جو سرسوں کے تیل سے جلانے تھے۔

(4)   مرزا قادیانی اور اس کے نام نہاد خلیفوں کی اسلام دشمن اور اشتعال انگیز تحریروں پر مشتمل پمفلٹ‘ پوسٹرز‘ سٹکرز اور بینرز کی وسیع پیمانے پر اشاعت اور تقسیم کا منظم منصوبہ۔

(5)   صد سالہ جشن کی مناسبت سے‘  ربوہ میں سو گھوڑے‘ سو ہاتھی اور سو ملکوں کے جھنڈے لہرانے کا انتظام کیا۔

(6)   اس موقع پر ربوہ میں عورتوں اور مردوں کے لیے فوجی وردی تیار کی گئی‘ جسے پہن کر انہیں عسکری طاقت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

(7)   اس کے علاوہ تقسیمِ مٹھائی‘ جشن جلسے اور تقریبات وغیرہ کے دیگر لوازمات کا اہتمام کیا۔ غرض اس طرح وہ اپنے کفر کی تبلیغ کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ اور تماشہ دیکھئے کہ جھوٹے کے جھوٹ کے سو سال مکمل ہونے پر ’’صد سالہ جشن‘‘ اور وہ بھی آئین و قانون کی خلاف ورزی اور مسلمانوں کے لیے اشتعال کا باعث۔

قادیانی جماعت کی اس تیاری پر اسلامیان پاکستان کو تشویش لاحق ہوئی۔ عالمی مجلسِ تحفظِ ختم نبوت نے فوری طور پر دفتر مرکزیہ ملتان میںاپنی مرکزی ورکنگ کمیٹی کا 12 مارچ 1989ء کو اجلاس طلب کیا اور اس تشویشناک صورت حال پر غور کرکے اہم فیصلے کیے۔

(1)   روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ کراچی‘ ملتان‘ روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور‘ کراچی‘ راولپنڈی‘ کوئٹہ کے تمام ایڈیشنوں میں آخری صفحہ پر ہزاروں روپیہ کی لاگت سے اشتہار دیا‘ جس میں جشن پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا اور پابندی نہ لگنے کی صورت میں 23 مارچ کو عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کی جامع مسجد محمدیہ ریلوے سٹیشن ربوہ پر ’’آل پاکستان ختم نبوت ریلی‘‘ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا۔

(2)   17 مارچ 1989ء کو پورے ملک کے تمام مکاتب فکر نے یوم احتجاج منایا۔18 مارچ کو سرگودھا میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں تمام دینی جماعتوں اور شبان ختم نبوت نے بھرپور حصہ لے کر نمایاں کردار ادا کیا۔

  (3)    12مارچ کو ملتان‘ 18 مارچ کو بہاولنگر‘ 19 مارچ دوالمیال جہلمjhelum میں عظیم الشان احتجاجی کانفرنسیں منعقد کی گئیں۔ ربوہ میں مشترکہ جمعہ اور سرگودھا‘ جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں عظیم الشان ختم نبوت کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ مولانا خواجہ خان محمد صاحب اپنے رفقاء کی ٹیم لے کر پورے پنجاب میں سرگرم عمل ہو گئے۔

(4)        عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت سرگودھا اور چنیوٹchiniotنے 23 مارچ کو ربوہ کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

(5)        پورے ملک کے اخبارات میں احتجاجی بیانات اور غم و غصہ کا اظہار کیا گیا۔ اس سلسلہ میں مولانا فقیر محمد صاحب سیکرٹری اطلاعات عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت فیصل آباد نے بھرپور اور موثر کردار ادا کیا۔ یوں پورے ملک میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے کارکنان و رہنما سراپا احتجاج بن گئے۔

 (6)       پورے ملک سے وفود اور قافلے ’’جشن‘‘ بند نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کے لیے ربوہ پہنچنے کی تیاری کرنے لگے۔

(7)        مولانا زاہد الراشدی مرکزی سیکرٹری اطلاعات مرکزی مجلس عمل تحفظِ ختم نبوت پاکستان نے گوجرانوالہ کی لائٹ اینڈ ڈیکوریشن کی پارٹیوں سے ملاقات کی اور مرزائیوں کے خودساختہ جشن پر چراغاں کا سامان سپلائی نہ کرنے کا وعدہ لیا اور تمام مکاتبِ فکر کی طرف سے ایک مشترکہ فتویٰ مرتب کیا کہ مرزائیوں کے جشن پر مسلمانوں کا سامانِ چراغاں مہیا کرنا تعاون علیٰ الکفر کے باعث قطعاً حرام اور ناجائز ہے۔ مولانا کی اخلاص بھری کاوش سے گوجرانوالہ کی لائٹ اینڈ ڈیکوریشن کی پارٹیوں نے نہ صرف سامان دینے کے معاہدے منسوخ کیے‘ بلکہ ایک وفد مرتب کیا اور تمام ایسے شہر جہاں سے مرزائیوں نے سامان کی بکنگ کا معاہدہ کیا تھا‘ کا دورہ کرکے تمام مسلمان پارٹیوں کو سامان دینے سے روکا‘ جس پر انہوں نے اپنی دینی حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مرزائیوں کو کورا جواب دے دیا۔

(8)        مولانا منظور احمد چنیوٹی ان دنوں پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے۔ انہوں نے اسمبلی میں اس جشن پر پابندی کے سلسلہ میں آواز بلند کی۔

مرزائیوں نے یہ صورت حال دیکھ کر ربوہ میں جشن کے انتظامات کے علاوہ بھارتی سرحد کے قریب جلو موڑ سے تقریباً تین کلومیٹر آگے ’’ہانڈو‘‘ نامی گائوں میں وسیع قطعہ اراضی لے کر اس پر بلڈوزر اور کرینیں لگا کر پنڈال بنایا۔ ٹیوب ویل بور کیے‘ پانی کے پائپ بچھائے اور متبادل انتظام کی مکمل تیاری کی۔  عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت لاہور کے امیر الحاج بلند اختر نظامی کو ایک خط کے ذریعہ اس کی اطلاع ہوئی۔ مرزائیوں کی اس سازش پر عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے امیر مرکزیہ حضرت خواجہ خان محمد صاحب نے اخبارات کو بیان جاری کیا‘ جو روزنامہ ’’جنگ‘‘ لاہور کے صفحہ اول پر مورخہ 17 مارچ 1989ء کو شائع ہوا۔ عالمی مجلس نے لاہور کے کمشنر‘ ڈی-سی اور ہوم سیکرٹری پنجاب کو ٹیلی گرام دیئے۔ یوں قادیانی کفر نے مسلمانوں کو الجھانے کے لیے ربوہ کے علاوہ دوسرا محاذ بھی کھول دیا۔

لاہور کے قریب اس سازش کی اخبارات میں خبر آتے ہی مولانا عبدالتواب صدیقی نے باغبانپورہ سے داروغہ والا تک 22 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

جمعیت علماء اسلام کے نائب امیر محترم مولانا قاری محمد اجمل خاں‘ مولانا محمد اجمل قادری اور جامع مسجد وزیر خاں لاہور کے خطیب مولانا خلیل احمد قادری سرگرم عمل ہو گئے۔ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن صاحب نے وفاقی حکومت کی سربراہ بیگم زرداری کو اس طرف متوجہ کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ اعتزاز احسن‘ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار بہادر خان اسے صوبائی مسئلہ کہہ کر فارغ ہو گئے۔

حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب نے 20 مارچ کو اسلام آباد میں مرکزی مجلسِ عمل تحفظِ ختم نبوت کا اجلاس جامع مسجد دارالسلام میں طلب کر لیا۔ اسلام آباد میں عالمی مجلس کے مبلغ مولانا عبدالرئوف‘ مولانا قاری محمد امین‘ مولانا محمد رمضان علویؒ اور مولانا محمد عبداللہ اراکین شوریٰ شب و روز ایک کرکے اسے کامیاب بنانے پر لگ گئے۔

18 مارچ کی شام کو ڈی- سی اور ایس – پی جھنگjhang ربوہ گئے‘ جہاں عالمی مجلس کے رہنما مولانا محمد اشرف ہمدانی‘ صاحبزادہ طارق محمود‘ مولانا فقیر محمد اور مولانا خدا بخش نے ان سے ملاقات کرکے سارے ملک کی صورت حال سے ان کو باخبر کیا۔ صوبائی حکومت عالمی مجلس‘ مرکزی مجلسِ عمل‘ اسلامیانِ پاکستان اور تمام مکاتب ِفکر کے رہنمائوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھ رہی تھی۔

20 مارچ کو اسلام آباد میں مجلسِ عمل کا اجلاس منعقد ہوا۔ اسلام آباد‘ راولپنڈی کے تمام علماء کرام‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام‘ جمعیت اہل حدیث‘ جمعیت علمائے پاکستان اور منہاج القرآن‘ غرضیکہ تمام مکاتب فکر اور دینی جماعتوں کے پچاس نمائندگان نے شرکت کی۔ مولانا سید چراغ الدین نے مولانا سمیع الحق صاحب سے ہسپتال جا کر ملاقات کی۔ انہوں نے بتایا کہ میری عیادت کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب محمد نواز شریف آ رہے ہیں۔ان سے میں دو ٹوک بات کروں گا۔ وفاقی وزارتِ داخلہ و مذہبی امور کے نمائندگان عجیب ذہنی کیفیت اور دوغلی پالیسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔

مجلسِ عمل کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ مولانا زاہد الراشدی آئی-جے-آئی کی جماعت کا وفد لے کر ہوم سیکرٹری پنجاب کو ملیں۔ اتحاد العلماء کے مولانا محمد عبدالمالک نے حضرت امیر مرکزیہ کے نام قاضی حسین احمد صاحب کا پیغام پہنچایا کہ اس جدوجہد میں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہی پیغام ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے ان کے نمائندے لائے۔

صوبائی حکومت آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل کی کارروائی سے لمحہ بہ لمحہ آگاہی حاصل کر رہی تھی۔ پورے صوبہ کی صورت حال ان کے سامنے تھی۔ مجلس عمل کا یہ فیصلہ کہ اگر مرزائی جشن بند نہ ہوا تو 23 مارچ کو پورے ملک کا رخ ربوہ کی طرف ہوگا۔ اس فیصلہ کی اطلاع ملتے ہیں لاہور میں ہوم سیکرٹری نے مجلسِ عمل کے نمائندگان کو بلایا اور اسی وقت 20 مارچ کو ڈی-سی اور ایس- پی جھنگ ربوہ گئے اور عالمی مجلس تحفظِ ختم نبوت کے رہنما مولانا محمد اشرف ہمدانی‘ صاحبزادہ طارق محمود اور مولانا فقیر محمد‘ ربوہ اور چنیوٹ کے رفقاء سمیت ان افسران سے ملے اور پنجاب حکومت کی ہدایت پر ڈی-سی جھنگ نے قادیانی جشن پر مکمل پابندی کا اعلان کر دیا۔ مولانا فقیر محمد صاحب قادیانیوں کے تمام پروگراموں سے باخبر تھے۔ انہوں نے ان کی تفصیل ڈی-سی کو بتائی۔ انہوںنے تمام پروگراموں کو منسوخ کرنے کا آرڈر جاری کر دیا۔

20 مارچ کی رات کو راولپنڈی راجہ بازار میں ختم نبوت کانفرنس ہوئی۔ اس سے قبل ریڈیو کے ذریعہ پنجاب گورنمنٹ کی طرف سے ’’جشن‘‘ پر پابندی کا اعلان ہو چکا تھا۔ کانفرنس سے فارغ ہوتے ہی حضرت الامیر مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم گوجرانوالہ‘ فیصل آباد کے راستہ ربوہ روانہ ہوئے۔ صوفی ریاض الحسن گنگوہی اور دوسرے رفقاء فیصل آباد سے آپ کے ہمراہ ہوگئے۔23 مارچ کو آپ نے اپنی آنکھوں سے ربوہ میں مرزائی سازش کی ناکامی کا منظر دیکھا اور خدا کے حضور سجدئہ شکر بجالائے۔ اس مختصر دورہ کے بعد آپ خانقاہ عالیہ تشریف لے گئے۔

یوں ایک بار پھر کفر ہار گیا اور اسلام اور مسلمان جیت گئے۔ فالحمدللہ: ربوہ کی طرح ’’ہانڈو‘‘ گائوں میں بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ لاہور پولیس نے سب سامان اٹھوا دیا۔ مرزائی‘ مرزا قادیانی کو ماننے کے گناہ سمیت جلسہ کا سامان سروں پر رکھ کر دوڑے۔ پورے پنجاب میں مرزائیوں کے جشن پر پابندی لگ چکی تھی۔ بلوچستانbalochistan اور سرحدsarhad کے مسلمانوں کے سامنے بھی مرزائیوں کی سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ البتہ سندھ میں جہاں خالصتاً پیپلز پارٹی کی حکومت تھی‘ بعض مقامات پر مرزائیوں نے پروگرام کیے مگر انتہائی رازداری سے‘ بزدلانہ طریقہ پر چھپُ کر الحمدللہ‘ یوں 23مارچ کا سورج مرزائیت کی رسوائی کا سامان لے کر طلوع ہوا۔ فالحمدللہ۔