Language:

قادیانیوں سےمکمل بائیکاٹ پر بریلوی متکبہ فکر کا موقف حصہ اول

الحمد للّٰہ وحدہ والصلوۃ والسلام علی من لانبی بعدہ. امابعد   حدود وقصاص کا قائم کرنا حکومت کا کام ہے رعایا کا کام نہیں لیکن اگر معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہو جائے کچھ افراد جرائم و معاصی کا ارتکاب کرنے لگ جائیں تو ان کو درست اور سیدھا کرنے کے لیے معاشرہ کو برائیوں سے پاک صاف رکھنے کے لیے جرائم پیشہ افراد سے قطع تعلقی (بائیکاٹ) کرنا ان کے ساتھ میل جول لین دین ترک کر دینا ان سے رشتہ ناطہ نہ کرنا ان کی تقریبات شادی غمی میں شریک نہ ہونا ان کو اپنی تقریبات میں شامل نہ کرنا نہایت ہی پُرامن بے ضرر اور مئوثر ذریعہ ہے۔ آج سے تقریباً نصف صدی پہلے تک ہر زمانہ کے مسلمان اسی بائیکاٹ کے ذریعہ اصلاحِ معاشرہ کرتے چلے آئے ہیں چنانچہ شرح مشکوٰۃ  (مرقات شرح مشکوٰۃج نمبر ۱۰ ص ۲۹۰)میں ہے۔ ’’یعنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اور ان کے بعد والے ہر زمانہ کے ایمان والو ں کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالفوں دشمنوں کے ساتھ بائیکاٹ کرتے رہے۔ حالانکہ ان ایمانداروں کو دنیوی طور پر ان مخالفوں کی احتیاج بھی ہوتی تھی لیکن وہ مسلمان خدا تعالیٰ کی رضا کوترجیح دیتے ہوئے بائیکاٹ کرتے تھے خدا تعالیٰ مسلمانوں کو اپنی رضا جوئی کی اور صحابہ کرام رضی اﷲعنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (آمین)

یہ بائیکاٹ قرآن وحدیث کے عین مطابق ہے بلکہ سیددوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی اس کو نافذ فرمایا۔ جب غزوئہ خیبر میں یہودیوں کا محاصرہ کیا اور یہودی قلعہ میں محصور ہوگئے اورکئی دن گزر گئے تو ایک یہودی آیا اور اس نے کہا اے ابوالقاسم صلی اﷲ علیہ وسلم اگر آپ مہینہ بھر ان کا محاصرہ رکھیں تو ان کو پروا نہیں کیونکہ ان کے قلعہ کے نیچے پانی ہے وہ رات کے وقت قلعہ سے اترتے ہیںاور پانی پی کر واپس چلے جاتے ہیں تو اگر آپ ان کا پانی بند کر دیں تو جلدی کا میابی ہوگی۔ اس پر سیّد دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کا پانی بند کردیا تو وہ مجبور ہو کر قلعہ سے اتر آئے۔ (زاد المعادابن قیم ج ۳ ص ۲۳۴ علی حامش مواہب للزر قانی ج ۴ ص ۲۰۵)

اور ایک مرتبہ جبکہ حضرت سیدنا کعب بن مالک رضی اﷲ عنہ صحابی اور ان کے دو اور صحابی ساتھی رضی اﷲعنہما غزوئہ تبوک سے پیچھے رہ گئے۔ واپسی پر سید دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب طلبی فرمائی اور تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان تینوں کے ساتھ بات چیت ترک کر دی جائے۔ حضرت کعب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ونھی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم عن کلامی وکلام صاحبی(صحیح بخاری ص ۶۷۵ ج ۲ باب وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا حتی اذا الخ) ’’ یعنی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے میرے ساتھ اور میرے دو ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرمادیا۔ فاجتنب الناس کلامنا (صحیح بخاری ص ۶۷۵ ج ۲ باب وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا حتی اذا الخ)ہمارے ساتھ کوئی بھی بات نہ کرتا تھا۔ اور اس بائیکاٹ کا اثریہ ہوا کہ زمین باوجود وسیع ہونے کے ان پر تنگ ہوگئی بلکہ وہ اپنی جانوں سے بھی تنگ آگئے۔ حتّی إذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنوا ان الّا ملجا من اللّہ الّا الیہ۔  (توبہ ۱۱۸) یہ بائیکاٹ جب چالیس دن تک پہنچا تو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اب ان کی بیویا ں بھی ان سے الگ ہوجائیں۔ پھر جب پورے پچاس دن ہوگئے تو خدا تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا حکم بذریعہ وحی نازل فرمایا۔ (روح البیان)

تنبیہ       یہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲعنہمتھے ان سے لغزش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک صاحب لولاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی برکت سے ان کی لغزش کو معاف فرمایا ان کی معافی کی سند قرآن مجید میں نازل فرمائی ان کے درجات بلند کیے، لہٰذا اب کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ ان حضرات کے متعلق کوئی ادب سے گری ہوئی بات کہے یا دل میں بدگمانی رکھے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کے ساتھ ایسا کرنا سرا سر ہلاکت ہے اور دین کی بربادی ہے خدا تعالیٰ ادب کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

قطع تعلقی (بائیکاٹ)کے متعلق قرآن پاک میں ہے۔

 ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار(ھود ۱۱۳)                     یعنی ظالموں کی طرف میلان نہ کرو ورنہ تمھیں نار جہنم پہنچے گی۔

نیز قرآن پاک میں ہے فلا تقعد بعد الذ کرٰی مع القوم الظّٰلمین (انعام۶۸)     یعنی یاد آنے کے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھو۔

اورحدیث پاک میں ہے’’یعنی رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بنی اسرائیل گناہوں میں مبتلا ہوئے تو ان کو ان کے علماء نے منع کیا مگر وہ باز نہ آئے پھر ان علماء نے ان کے ساتھ ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کردیا اور ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے، (بائیکاٹ نہ کیا ) تو خدا تعالیٰ نے ان کو ایک دوسرے کے دلوں پر مار دیا اور حضرت داؤدعلیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان پر لعنت بھیجی کیونکہ وہ نافرمانی کرنے میں حد سے بڑھ گئے تھے۔ حضرت ابن مسعودرضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ رسول اکرم  صلی اﷲ علیہ وسلم تکیہ لگائے تشریف فرما تھے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میر ی جان ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں کو روک لو۔‘‘ ۔ (ترمذی شریف ج ۲ ص ۱۳۵باب تفسیر من سورۃ المائدہ)

مذکورہ بالا بائیکاٹ کا حکم ایسے لوگوں کے متعلق ہے جو عملی طور پر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں لیکن جو لوگ دین کے ساتھ دشمنی کریں اور خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان و عظمت پر حملے کریں ایسے بد مذہبوں کے لیے سخت حکم ہے ان کے ساتھ بائیکاٹ نہ کرنا، میل میلاپ، محبت دوستی کرنا سخت حرام ہے۔ اگر چہ وہ ماں باپ ہوں یا بیٹے بیٹیاں ہوں بہن بھائی کنبہ برادری ہو۔ قرآن پاک میں ہے۔

یا ایھاالذین امنوا لا تتخذوا اباء کم واخوانکم اولیاء ان ستحبّوا الکفر علی الایمانط ومن یتولھم منکم فاولئک ھم الظلمونo (التوبہ 23)

یعنی اے ایمان والو! اگرتمہارے باپ دادا اور تمہارے بہن بھائی ایمان پر کفر کو پسند کریں تو ان سے محبت و دوستی نہ کرو اور جو تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے گا وہ ظالموں میں سے ہوگا۔‘‘ نیز قرآن پاک میں ہے۔

 تم نہ پائو گے کسی ایسی قوم کو جو خدا تعالیٰ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں وہ دوستی کریں ایسے لوگوں سے جو دشمنی اور مخالفت کریں اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے اگرچہ وہ دشمنی کرنے والے ان کے باپ ہوں یا بیٹے ہوں بھائی ہوں یا کنبہ برداری ہو۔ ایسے ایمان والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور ان کی روح سے مدد فرماتا ہے اور انہیںبہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ ان بہشتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، خدا تعالیٰ ان سے راضی وہ خدا سے راضی یہ لوگ خدا تعالیٰ کی جماعت ہیں اور خدا تعالیٰ کی جماعت ہی دونوں جہاں میں کامیاب ہے۔‘‘o (سورۃ المجادلہ22)

 یعنی آیت مذکورہ کا مفہوم یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسول کے دشمنوں کے ساتھ دوستی یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہوہی نہیں سکتیں چنانچہ تفسیر روح المعانی میں ہے۔

یعنی آیت مبارکہ میں تصور دلایا گیا ہے کہ کوئی قوم مومن بھی ہو اور کفار ومشرکین کے ساتھ اس کی دوستی و محبت بھی ہو یہ محال وممتنع ہے۔‘‘ (روح المعانی جلد28صفحہ35)

نیز اسی میں ہے۔ مبالغۃ فی النھی عنہ والزجر عن ملابستہ والتصلب فی مجانبۃ أعداء اللّہ تعالیٰ، (روح المعانی جلد28صفحہ35)

یعنی آیت مذکورہ میں خدا تعالیٰ اور اس کے پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ محبت و دوستی کرنے سے مبالغہ کے ساتھ منع فرمایا اور ایسا کرنے والوں کے لئے زجروتوبیخ ہے اور خدا تعالیٰ کے دشمنوں سے الگ رہنے کی پختگی بیان کی گئی ہے۔ خدا تعالیٰ جل مجدہ نے اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے دلوں میں ایسا ایمان نقش کر دیا تھا۔ کہ ان کی نظروں میں حبیب خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کی کوئی وقعت ہی نہ تھی خواہ وہ باپ ہو کہ بیٹا بھائی ہو کہ بہن چنانچہ سیدنا امیر المومنین ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنے باپ ابو قحافہ کی زبان سے سید دو عالم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان میں گستاخی سنی تو اس کو ایسا مکا رسید کیا کہ وہ گر گیا جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کیا گیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا أفعلت یا أبا بکراے ابو بکر آپ نے ایسا کیا ہے؟ عرض کی کہ ہاں یا رسول اللہقال لا تعد، قال:واللّٰہ لوکان السیف قریباً منی لضربتہ (روح المعانی نمبر ۲۸ ص ۳۷)’’ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی قسم اگر میرے قریب تلوار ہوتی تو میں اس کو بھی مار دیتا، اس پر آیت مذکورہ نازل ہوئی (روح المعانی) اور سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اﷲعنہ نے اپنے باپ کے منہ سے اپنے محبوب آقا کی شان میں کوئی نا پسندیدہ بات سنی تو اسے منع کیا وہ باز نہ آیا تو انھوں نے باپ کو قتل کر دیا جیسے روح المعانی میں ہے۔ عن انس قال کان أی أبوعبیدہ قتل أباہ وھومن جملۃأساری بدر بیدہ لما سمع منہ فی رسول اللّٰہصلی اﷲ علیہ وسلم مایکرہ ونھاہ فلم ینتہ۔ (روح المعانی ج ۲۸ ص ۳۷)   ْ

یوں ہی حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اپنے مامو ں عاص بن ہشام کو بدر کے دن اپنے ہاتھ قتل سے کردیا اور حضرت مولیٰ علی شیر خدا رضی اﷲ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی اﷲ عنہ نے عتبہ شیبہ کو قتل کر دیا اور حضرت مصعب بن عمیررضی اﷲ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیا۔                       (جاری ہے)