Language:

تحفظ ختم نبوت کے لئے قلم کا ادنا مزدور – محمد طاہر عبدالرزاق

کوئی چھ برس بیتے، میں ایک جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لئے کشاں کشاں جامعہ رحمانیہ قلعہ گجر سنگھ لاہور چلا گیا۔ خطیب اسلام مولانا محمد اجمل خان مدظلہ منبر پر جلوہ افروز تھے۔ مولانا کی خطابت کی جولانی اور سحر بیانی اپنے نقطہ عروج پر تھی۔ آواز میں گھن گرج، لہجہ میں رعب ودبدبہ، اشاروں میں شمشیر مومن کی کاٹ، الفاظ میں کہکشاں کا شکوہ، فقروں میں طغیانی بپا کئے۔ دریا کی روانی اور مضمون میں علم و حکمت کی بہار کی گل فشانی تھی۔ حاضرین وجدوکیف کی کیفیت میں جھوم رہے تھے اور اپنے دامن قلب و نظر کی گلہائے رنگا رنگ سے بھر رہے تھے۔ اچانک مولانا کا روئے سخن ’’فتنہ قادیانیت‘‘ کی طرف پلٹا۔ انہوں نے قادیانیت کے تار و پود بکھیرنے شروع کئے۔ قادیانیت کے عقائد باطلہ کے بخئے ادھیڑے۔ مرزا قادیانی جہنم مکانی کی شخصیت بے حیثیت کا پوسٹ مارٹم کیا۔ پھر جب مولانا نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں مرزا قادیانی کی گستاخیوں کے چند حوالے پیش کئے تو پورا مجمع تھرا اٹھا۔ ہر کوئی غم و غصہ کا مجسمہ بنا بیٹھا تھا اور ہر زبان قادیانیت اور مرزا قادیانی پر بے شمار لعنتوں کے ڈونگرے برسا رہی تھی۔ میں بھی اس سوگوار ماحول میں تصویر غم بنے بیٹھا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کسی نے میرے دل میں کانٹھا چبھودیا اور شدت تکلیف سے میرے جسم کا ہر ہر رگ وریشہ چیخ اٹھا ہو۔ دل کا غم آنکھوں کے راستے باہر آیا۔ محبت رسولؐ میں میری گناہگار آنکھوں میں آنسوئوں کے چند قطرے ٹپکے اور میرے دامن پر پھیل گئے۔ قادیانیت کے خلاف زندگی میں یہ میرا پہلا احتجاج تھا۔ میں نے قمیض کے ایک کونے سے اپنی بھیگی آنکھوں کو خشک کیا اور صحن مسجد میں بیٹھ کر دل کا کشکول اللہ کے سامنے پھیلا کر اس فتنہ کی سرکوبی کی دُعا مانگی اور مسجد سے یہ عہد کر کے اٹھا کہ اے رب محمدؐ! زندگی میں مجھ کمزور وناتواں سے جہاں تک بن پڑا، میں دامے درمے قدمے سخنے تیرے لاڈلے اور چہیتے رسول خاتم النبیین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی حفاظت اور جھوٹی نبوت کی ذلت و رسوائی و بربادی کا سامان کرتا رہوں گا۔

غم کی چنگاریاں میرے سینے میں سلگتی رہیں۔ ایک دن دوستوں کی محفل جمی تھی۔ میں نے سنہری موقعہ سمجھتے ہوئے قادیانیت کا موضوع چھیڑدیا اور جوکچھ مولانا سے سنا تھا، دوستوں کوسنا دیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ حیران وششدر رہ گیا۔ سب کے چہروں پر غم وتشویش کی سلوٹیں اور آنکھوں میں غیرت کی چمک تھی۔ میں نے تاج و تخت ختم نبوت کی حفاظت، عظمت و عصمت رسولؐ کی پاسبانی اور اس فتنہ کی سرکوبی کی عملی منصوبہ بندی کرنے کی دعوت دی۔ قادیانیت سے برسر پیکار ہونے کیلئے ہر کوئی دوسرے سے بڑھ کر تیار تھا۔ ہمارے پاس جذبہ تھا لیکن تجربہ نہیں تھا۔ افراد تو تھے لیکن تربیت کے لئے کسی مربی کی ضرورت تھی۔ احباب تو تعلیم یافتہ تھے لیکن رَدِ قادیانیت پر مطالعہ کے لٹریچر نہ تھا۔ رحیم و کریم رب نے دستگیر ی فرمائی اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے رابطہ ہوگیا۔

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظمِ اعلیٰ مولانا عزیزالرحمن جالندھری مدظلہ نے ہماری رہنمائی فرمائی اور ہر ممکن تعاون سے نوازا۔ مناظر اسلام شاہین ختم نبوت مولانا اللہ وسایا نے لٹریچر اور لیکچرز کے ذریعے احباب کی تربیت فرمائی اور نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد کو قادیانیت کے خلاف صف آراء کیا۔ خطیب ختم نبوت ایڈیٹر ہفت روزہ ’’لولاک‘‘ صاحبزادہ طارق محمود نے سگے بھائیوں سے بڑھ کر پیار کیا اور ہر مشکل وقت میں ہماری سرپرستی وحوصلہ افزائی فرما کر اپنے عظیم والد مجاہد ختم نبوت مولانا تاج محمودؒ کی عظیم روایات کو زندہ وتابندہ رکھا۔ ہردم گرم برادرمکرم محمد متین خالد نے اپنی زندگی کی لغت سے آرام وسکون کے الفاظ نکال کر نذرآتش کردئیے اور حیات مستعار کی صبحیں اور شامیں تحفظ ختم نبوت کے لیے وقف کردیں۔ انہوں نے جدید دور میں سائنٹیفک انداز سے تحفظ ختم نبوت کا جو کام کیا ہے، وہ تحریک تحفظ ختم نبوت کا ایک درخشاں باب ہے۔مجاہد ختم نبوت سید علمدار حسین شاہ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان لاہور میں قادیانیوں کی کھانے کی میزیں اور برتن مسلمانوں سے الگ کروا کر سرکاری اداروں میں جھوٹی نبوت کی ذلت و رسوائی کی ایک نئی تحریک شروع کی۔ پروانہ ختم نبوت عبدالخالق علوی نے اخلاص کی قوت اور دعائوں کے سوز سے تحریک کو ایک نئی جلابخشی۔ میں وطن عزیز کے مشہور خطاط جناب عنایت اللہ رشیدی صاحب (اُردو ڈائجسٹ) کا تہ دل سے مشکور ہوں کہ وہ بڑی محبت و چاہت سے تمام کتابچوں کے ٹائٹل تیار کرتے ہیں۔

آقائے نامدار جناب محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے تحفظ کے لئے کافی دوست احباب اکٹھے ہوچکے تھے۔ لہٰذا عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بنک دولت پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جب عملی میدان میں نکلے تو معلوم ہوا کہ فتنہ قادیانیت کے زندہ رہنے کی ایک بہت بڑی وجہ ، مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کا قادیانیوں کے روح فرسا اور اعصاب شکن عقائدسے ناآشنائی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ بانی فتنہ قادیانیت مرزا قادیانی نے ان کے پیارے نبیؐ اور پیارے دین اسلام کے بارے میں کیا کیا ہرزہ سرائی کی ہے؟ وہ اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں کہ قادیانیوں نے وطن عزیز پاکستان اور ملت اسلامیہ کو کتنے گہرے اور زہریلے زخم لگائے ہیں اور پاکستان کو تباہ کرنے کی کتنی گھنائونی سازشیں کی ہیں اور کررہے ہیں۔ لہٰذا ایک اہم جلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کرنے کیلئے تحفظ ختم نبوت اور رَدِ قادیانیت کے مختلف موضوعات پر کتابچے تحریر کئے جائیں اور انہیں عوام الناس کے ہر شعبہ سے لے کر حکومت کے ایوانوں تک پہنچایا جائے۔ اس کام کی ذمہ داری بندہ پر تقصیر راقم الحروف کے نحیف کندھوں پر ڈالی گئی۔ مجھے اپنی کم علی کا بھی اعتراف تھا۔ قلم پکڑنے کا بھی کوئی خاص ڈھنگ نہ تھا۔ لیکن فرنگی نبوت کے جگر میں قلم کے نشتر لگانے کی ڈیوٹی لگ چکی تھی۔ میں نے پھر اسی در پر ہاتھ پھیلا دئیے، جہاں سے سب کو سب کچھ ملا کرتا ہے، توفیق ایزدی سے لکھناشروع کیا اور مختلف موضوعات پر کتابچے تحریر کئے جو آپ کے سامنے ہیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے ان رسائل کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی، بیسیوں تنظیموں نے انہیں شائع کر کے تقسیم کیا۔

اے میرے خالق! میں نے یہ کتابیں فقط تیری رضا اور تیرے پیارے نبیؐ کی عزت وناموس کے تحفظ کے لئے لکھی ہیں۔ میں اس سے کوئی نمودونمائش اور شہرت نہیں چاہتا۔اے میرے مالک ! پیارے رسولؐ کے دفاع میں لکھی گئی ان کتابوں کو اپنی بارگاہ عالی میں قبول و منظور فرما۔ اسے میرے لئے توشہ آخرت بنانا۔اسے میری قبر کا چراغ بنانا۔اسے میرے لئے حشر کے وحشت ناک میدان میں شفاعت محمدیؐ کا ذریعہ بنانا۔اے دعائوں کے قبول کرنے والے کریم! میں تحفظ ختم نبوت کے لئے قلم کاادنیٰ سا مزدور ہوں۔ میں تجھے تیرے محمدؐ کا واسطہ دے کر تیرے حضور میں جھولی پھیلا کر دعا کرتا ہوں کہ زندگی کے آخری سانس تک مجھ سے یہ مزدوری لیتے رہنا۔(آمین ثم آمین)