Language:

جعلی نبوت کا خاتمہ – پروفیسر محمد سلیم مدیر سر راہے نوائے وقت

امت مسلمہ کو باہم پیوستہ کرنے والا رشتہ ہی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ جو شخص اس رشتہ کو کمزور کرنے کی کوشش کرے گا، وہ اس امت کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہو گا۔ وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ عالم عربی کی حدود و ثغور بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات کی وجہ سے ہیں۔عرب ممالک پہلے بھی موجود تھے لیکن عالم عرب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وجود میں آیا۔ لہٰذا عالم عرب ہو یا عالم اسلام ہو، اس کی اساس حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی قدرہی ہے۔ اگر بہ اونر سیدی تمام بو لہبی است۔ جو شخص اس بنیاد کو کمزور کرے گا وہ بولہبی فرقے کا فردشمار ہوگا۔ حضرت علامہ رحمۃ اللہ علیہ نے پنڈت جواہر لعل نہرو کے نام اپنے خط میں اسی لیے فرمایا تھا کہ احمدی صرف اسلام ہی کے غدار نہیں بلکہ وہ ہندوستان کے بھی غدار ہیں۔ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی تقویت کے لیے لٹریچر تیار کیا جس نے سات سمندر پار سے آکر ہندوستان پر غاصبانہ قبضہ کررکھا تھا۔ حضرت علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بہائی فرقہ قادیانیوں سے حد درجہ زیادہ مخلص اور بہتر ہے کیونکہ بہائی کھلے طور پر اسلام سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں لیکن قادیانی فرقہ اسلام کے اندر رہ کر اس کی جڑیں کاٹنا چاہتا ہے۔ ہم ذوالفقار علی بھٹو کے زبردست ناقد ہیں لیکن اس کی یہ خدمت کبھی نہیںبھول سکتے کہ اس نے قادیانیوں کو اسلام سے خارج کرکے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔ یعنی جو کام قادیانیوں کو خود کرنا چاہیے تھا، وہ حکومت کو کرنا پڑا۔ سوال یہ ہے کہ قادیانی جب نئی نبوت کا اجراء کر کے مسلمانوں سے علیحدہ ہوچکے ہیں تو وہ ان کے اندر رہنے پر کیوں مُصر ہیں؟ اب بھی وہ مردم شماری کے موقع پر اپنے نام مسلمانوں کے طور پر لکھواتے ہیں اور خود کو غیر مسلم ماننے پر تیار نہیں ہیں۔وہ مسلمانوں کے اندر رہ کر ان کی جڑیں کاٹنا چاہتے ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اب ساری دنیا میں وہ غیر مسلم تسلیم کر لیے گئے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب قادیانیوں کو ابھی غیر مسلم ڈکلیئر نہیں کیا گیا تھا کہ ہمارے کالج میں ایک قادیانی پروفیسر ہوا کرتے تھے جن کا نام رحمت علی تھا لیکن ’’مسلم‘‘ تخلص کرنے کے بعد وہ خود کو ’’رحمت علی مسلم‘‘ لکھا کرتے تھے۔ وہ پیریڈ پڑھانے کے لیے جس کلاس میں بھی جاتے، طلباء ان کے پہنچنے سے پہلے بلیک بورڈ پر ان کا نام ’’رحمت علی غیر مسلم‘‘ لکھ دیا کرتے تھے۔ ہم نے اس وقت اندازہ لگالیا تھا کہ ایک نہ ایک روز قادیانی غیر مسلم قرار پاجائیں گے کیونکہ زبان خلق نقارۂ خدا ہوتی ہے۔

حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ، ختم نبوت کو خدا کا بہت بڑا احسان قرار دیتے ہیں کیونکہ اس ختم نبوت کے نظریے نے امت مسلمہ کو متحد رکھا ہوا ہے ، وہ فرماتے ہیں  کہ:

لا نبی بعد ز احسانِ خدا است         پردۂ ناموس دین مصطفیؐ است

قوم را سرمایہ ملت ازو               حفظ سر وحدت ملت ازو

گذشتہ چودہ صدیوں میں یہی عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے اتحاد کا ضامن رہا ہے۔ نبوت کے کتنے ہی دعویدار کھڑے ہوئے لیکن امت مسلمہ نے کبھی انہیں درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ ہمارے نزدیک اگر کوئی مسلمان کسی مدعی نبوت سے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی معجزہ یا دلیل طلب کرتا ہے تو وہ اپنی کمزوری ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماگئے ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے، ۔۔۔ اس لیے ہم مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوے کے رد میں زیادہ بحث مباحثے کے قائل نہیں۔ ہمارے نزدیک اس کے جھوٹے ہونے کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

ہم جھنگ کالج میں پڑھایا کرتے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی پروفیسر نظام خاں بڑے بذلہ سنج آدمی تھے۔ ایک مرتبہ وہ ایف اے کے امتحان میں سپرٹنڈنٹ بن کر تعلیم الاسلام کالج ربوہ تشریف لے گئے۔ ایک روز سر ظفر اللہ جو ان دنوں عالمی عدالت کے جج تھے، نظام خاں صاحب سے ملنے آئے، انہوں نے خاں صاحب سے ازراہ مروت پوچھا کہ آپ یہاں ہمارے مہمان ہیں، آپ کو کوئی تکلیف تو پیش نہیں آئی؟ خاں صاحب نے جواب دیا کہ مجھے یہاں خطرہ ایمان تو محسوس نہیں ہوا لیکن خطرہ جان ضرور محسوس ہورہا ہے۔ سر ظفر اللہ نے حیران ہو کرپوچھا، کیوں؟ کسی کی طرف سے آپ کو دھمکی ملی ہے یا کسی طالب علم نے نقل کرنے کے لیے آپ پر دبائو ڈالا ہے؟ خاں صاحب فرمانے لگے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، لیکن یہاں کے پانی سے مجھے ’’دست شریف‘‘ لگ گئے ہیں۔ سر ظفراللہ بات کی تہہ کو نہ پہنچ سکے۔ حیران ہو کر کہنے لگے کہ دست شریف؟ چہ معنی؟ خاں صاحب نے جواب دیا کہ جناب!چونکہ یہ ’’پیغمبری بیماری‘‘ ہے لہٰذا اس ڈرسے کہ کہیںاس کی توہین نہ ہو جائے یا آپ کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے، میں نے ’’دست شریف‘‘ کہہ کر عزت سے اس کا نام لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد سر ظفر اللہ کو پروفیسر نظام خاں سے دوبارہ ملاقات کی جرأت نہیں ہوئی۔

سر ظفراللہ کو اسی قسم کی شرمندگی ایک اور موقع پر بھی اٹھانا پڑی۔ جنیوا کے کسی ہوٹل میں وہ قدرت اللہ شہاب اور ان کی بیگم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ جب کوفتوں کی ڈش آئی تو قدرت اللہ شہاب کی بیگم کہنے لگی کہ خدا جانے یہ قیمہ کیسا ہے، اس لیے میں تو نہیں کھائوں گی۔ سر ظفر اللہ کہنے لگے کہ جب ہوٹل والے کہتے ہیں کہ یہ حلال گوشت کا قیمہ ہے تو ہمیں حضورؐ کے اس فرمان پر عمل کرنا چاہیے کہ کھانے کے معاملے میں زیادہ شک و شبے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ بیگم شہاب کہنے لگیں کہ یہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے یا آپ کے حضور کا؟ اگر ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تو سر آنکھوں پر! اس پر سرظفر اللہ خاں اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

مدعیان نبوت پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن آج تک نبوت کا کوئی ایسا دعویدار پیدا نہیں ہوا تھا، جس نے کسی قوت کے گماشتے کے طور پر نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہو۔ یہ شرف قادیان کے نبی کو حاصل ہے کہ اس نے ایک استعماری قوت کے ایجنٹ کے طور پر نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنی ممدوح قوت کی مدح میں کتابیں لکھ لکھ کر الماریاں بھر دیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس استعماری قوت کی رخصتی کے ساتھ ہی اس کی ایجنٹ نبوت بھی پاکستان سے رخصت ہو جاتی لیکن یہ ناخوشگوار فریضہ اہل پاکستان کو سرانجام دینا پڑا۔ ’’پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘‘ کے مصداق آج اس جعلی نبوت کے خلیفہ برطانیہ میں مقیم ہیں اور عالم اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہیں۔ امت مسلمہ کو یقین ہے کہ جس طرح نبوت کے سابقہ دعویدار نسیاً منسیاً ہوچکے ہیں، اسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خانہ ساز نبوت بھی اپنے فطری انجام کو پہنچ جائے گی کیونکہ ’’لا نبی بعدی‘‘ کا یہی تقاضا ہے۔