Language:

مرزا کایانی کے چیلنج

’’انگریز کی پرستش‘‘ اگر قادیانیت کاکوئی دوسرا نام ہو گا تو یقینا یہی ہونا چاہئے۔مرزاقادیانی انگریز کا ایسا پجاری تھا کہ وہ جو بھی خدمت انگریز کی بجا لایا اسے اپنی عبادت سمجھ کر کیا ۔مرزاقادیانی نے خود یہ چیلنج دیا ہے کہ اسکے جیسا انگریز کا نمک حلال ،خیر خواہ ،وفادار اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ مرزا قادیانی کی تحریروں سے یہ چیلنج نیچے نقل کیے جاتے ہیں   

(چیلنج )میں دعویٰ سے کہتا ہوں:

(1)        ’’میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں میں سے اوّل درجہ کا خیرخواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اوّل درجہ کا بنا دیا ہے۔ (1) اول والد مرحوم کے اثر نے (2) دوم اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے (3) تیسرے خدا تعالیٰ کے الہام نے۔‘‘                                                       (تریاق القلوب صفحہ 363 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 491 از مرزا قادیانی)

(چیلنج )20 سالہ بے نظیر خدمات

(2)        ’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جرأت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کرسکتا۔‘‘                                     (مجموہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 355 طبع جدید از مرزا قادیانی)

(چیلنج )لاجواب سروس

(3)        ’’میرے اس دعویٰ پر کہ مَیں گورنمنٹ برطانیہ کا سچا خیر خواہ ہوں، دو ایسے شاہد ہیں کہ اگر سول ملٹری جیسا لاکھ پرچہ بھی ان کے مقابلہ پر کھڑا ہو، تب بھی وہ دروغگو ثابت ہوگا۔ (اوّل) یہ کہ علاوہ اپنے والد مرحوم کی خدمت کے، میں سولہ برس سے برابر اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے۔

۔۔۔۔۔کیا سول ملٹری گزٹ کے پاس کسی ایسی خیر خواہ گورنمنٹ کی کوئی اور بھی نظیر ہے؟ اگر ہے تو پیش کریں۔ لیکن مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ جس قدر میں نے کارروائی گورنمنٹ کی خیر خواہی کے لیے کی ہے، اس کی نظیر نہیں ملے گی۔‘‘                                                                                                                                      (مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ 462 طبع جدید از مرزا قادیانی)

(چیلنج )مرزا قادیانی کو فخر ہے!

(4)        ’’یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اُردو فارسی، عربی میں تالیف کر کے اسلام کے تمام ملکوں میں پھیلا دیں۔ ۔۔۔۔جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے وہ غلط خیالات چھوڑ دیے جو نافہم ملائوں کی تعلیم سے ان کے دلوں میں تھے۔ یہ ایک ایسی خدمت مجھ سے ظہور میں آئی کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ برٹش انڈیا کے تمام مسلمانوں میں سے اس کی نظیر کوئی مسلمان دکھلا نہیں سکا۔۔۔                                                              (ستارہ قیصرہ صفحہ 4 مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 114، از مرزا قادیانی)

 (چیلنج ) میں ان خدمات میں یکتا ہوں

(5)        ’’پس میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میں ان خدمات میں یکتا ہوں اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں ان تائیدات میں یگانہ ہوں اور میں کہہ سکتا ہوں کہ میں اس گورنمنٹ کے لیے بطور ایک تعویذ کے ہوں اور بطور ایک پناہ کے ہوں جو آفتوں سے بچاوے اور خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ خدا ایسا نہیں کہ ان کو دکھ پہنچاوے اور تو ان میں ہو۔ پس اس گورنمنٹ کی خیر خواہی اور مدد میں کوئی دوسرا شخص میری نظیر اور مثیل نہیں اور عنقریب یہ گورنمنٹ جان لے گی، اگر مردم شناسی کا اس میں مادہ ہے۔‘‘                                                                       (نور الحق صفحہ33، مندرجہ روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 44، 45 از مرزا قادیانی)

 (چیلنج )ایسی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں:

(6)        ’’میں نے اپنی قلم سے گورنمنٹ کی خیر خواہی میں ابتدا سے آج تک، وہ کام کیا ہے جس کی نظیر گورنمنٹ کے ہاتھ میں ایک بھی نہیں ہوگی ۔‘‘                                                                (انجام آتھم صفحہ 68 مندرجہ روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 68، از مرزا قادیانی)

(چیلنج )میری جماعت جیسی اور کوئی جماعت نہیں :

(7)        ’’جماعت جو میرے ساتھ تعلق بیعت و مریدی رکھتی ہے۔ وہ ایک ایسی سچی، مخلص اور خیرخواہ اِس گورنمنٹ کی بن گئی ہے کہ مَیں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی نظیر دُوسرے مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی۔ وہ گورنمنٹ کے لیے ایک وفادار فوج ہے، جن کا ظاہر و باطن، گورنمنٹ برطانیہ کی خیرخواہی سے بھرا ہوا ہے۔‘‘       (ستارہ قیصریہ صفحہ 12 مندرجہ روحانی خزائن جلد 12 ، صفحہ 264 از مرزا قادیانی)

(چیلنج )میری خدمت کی نظیر ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کرسکتا

(8)        ’’اب میں اپنی گورنمنٹ محسنہ کی خدمت میں جُرأت سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ بست سالہ میری خدمت ہے جس کی نظیر برٹش انڈیا میں ایک بھی اسلامی خاندان پیش نہیں کرسکتا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ اِس قدر لمبے زمانہ تک کہ جو بیس برس کا زمانہ ہے، ایک مسلسل طور پر تعلیم مذکورہ بالا پر زور دیتے جانا کسی منافق اور خود غرض کا کام نہیں ہے بلکہ ایسےشخص کا کام ہے جس کے دل میں اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی ہے۔ ‘‘                                        (تریاق القلوب صفحہ 361مندرجہ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 489 از مرزا قادیانی)

(چیلنج ) تمام فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اوّل درجہ کا وفادار

(9)        ’’میں زور سے کہتا ہوں اور میں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میں اعلان دیتا ہوں کہ باعتبار مذہبی اصول کے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اوّل درجہ کا وفادار اور جان نثار یہی نیا فرقہ ہے جس کے اصولوں میں سے کوئی اصول گورنمنٹ کے لیے خطرناک نہیں۔‘‘                                                                                 (مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 193 طبع جدید، از مرزا قادیانی)

قادیانی جماعت سے وابسطہ افراد اب خود فیصلہ کر لیں کہ مرزا قادیانی کوئی مجدد ، مفسر ، محدث ، نبی ، مثیل ، ظلی، بروزی میں سے کچھ ہو سکتا ہے ؟ اور کیا مرزا ئیت کا اسلام سے دور کا کوئی تعلق بھی ہے ؟ انگریز کے دورمیں مسلمانوں پر کیا کیا ظلم ہوا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔1857ء میں مرزا قادیانی کوئی ناسمجھ طفل نہیں تھا بلکہ بھرپور جوان تھا اور 1857ء میں انگریزوں نے اپنی کامیابی کے بعد مسلمانوں سے کیا سلوک کیا؟ اس سے وہ ناواقف نہیں ہو سکتا تھا۔

1857ء کی جنگ آزادی میں برصغیر کے عوام کی ناکامی کے بعد تہذیب و تمدن کے علمبرداروں نے تہذیب کو برہنہ کر دیا۔ شرافت کا منہ نوچ لیا۔ حیا کے نقاب کو تار تار کر دیا۔ پردہ پوش خواتین کو گھروں سے نکال کر بالوں سے پکڑ کر عریاں گھسیٹے ہوئے گورے ٹامیوں کے کیمپوں میں پہنچاد یا گیا۔ جس مسلمان کو دیکھا اس کو غدار سمجھ کر سولی پر چڑھا دیا یا توپ دم کر دیا۔ ان نظاروں کو دیکھ کر ظہیر دہلوی نے کہا تھا:                

جسے دیکھا حاکم وقت نے کہا یہ بھی قابل دار ہے

1857ء کی جدوجہد آزادی کی ناکامی کے بعد انگریزوں نے جو مظالم کیے، وہ اتنے شدید تھے کہ پورے ہندوستان پر خوف و ہراس طاری ہوگیا۔ انبالہ سے دہلی تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر کسی مسلمان کی لاش نہ لٹکتی ہو۔

ہزاروں بے قصور مسلمانوں کو انگریزوں نے مار ڈالا۔ ان کے بدنوں کو سنگینوں سے چھیدا جاتا تھا۔ مسلمانوں کو ننگا کرکے اور زمین سے باندھ کر سر سے پائوں تک جلتے ہوئے تانبہ کے ٹکڑوں سے بری طرح داغ دیا جاتا اور انہیں سور کی کھالوں میں سی دیا جاتا۔ ہزاروں مسلمان عورتوں نے فوج کے خوف سے کنوئوں میں چھلانگ لگاکر جان دے دی۔اور بچنے والیوں کو جب کنوئوں سے نکالنا چاہا تو انہوں نے کہا ہمیں گولیوں سے مار ڈالو، نکالو نہیں، ہم شریف گھروں کی بہو بیٹیاں ہیں۔ ہماری عزت خراب نہ کرو۔

13 اپریل 1919ء کو بیساکھی کے روز جلیانوالہ باغ کے احتجاجی جلسہ میں جنرل ڈائر نے نہتے لوگوں پر انگریز سپاہیوں کے کئی دستوں کے ساتھ دھاوا بول دیا۔ جلیانوالہ باغ کو فوج نے چاروں طرف سے گھیر لیااور بغیر کسی انتباہ کے پرُامن عوام پر اندھا دھند گولیاں برساناشروع کر دیں۔ نوجوان گولیاں کھا کھا کر گرتے تھے اور ان کی جگہ اور نوجوان آ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جلیانوالہ باغ میں خون انسانی کی ندیاں بہنے لگیں۔ زخمی تڑپتے اور کراہتے ہوئے نظر آنے لگے، جو لوگ جاں بچانے کے لیے بھاگے، وہ جلیانوالہ باغ کے کنوئیں میں گر کر جاں بحق ہو گئے۔ جلیانوالہ باغ میں ہر طرف لاشیں بکھری پڑیں تھیں اور کنواں لاشوں سے اَٹ گیا تھا۔ ڈائر نے جس وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا، اس نے 1857ء کے میجر ہڈسن اور کرنل نیل کے ظلم و ستم کی داستان خونچکاں کی یاد تازہ کر دی۔ میجر ہڈسن وہ خونخوار بھیڑیا تھا جس نے مغل شہزادوں کے سر کاٹ کر ان کا چلو بھر خون پیا تھا اور ان شہزادوں کے سروں کو ایک طشت میں لگا کر ہندوستان کے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی خدمت میں پیش کیا تھا اور کرنل نیل وہ شیطان صفت بدطنیت وحشی درندہ تھا جس نے 1857ء میں مسلم خواتین کو بے لباس کر کے ان کے لواحقین کو ان سے برا بھلا کرنے پر مجبور کیا تھا اور جب ان مجاہدوں نے انکار کیا تو انھیں بڑی بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان شریف زادیوں کو وحشی ٹامیوں کے حوالے کر دیا گیا اور پھر جو ہوا سو ہوا حتیٰ کہ وہ ہمیشہ کی نیند سو گئیں۔

اگر مرزا قادیانی ان ستم رانیوں اور وحشت و بربریت کے باوجود انگریزی سلطنت کی وفا داری کا دم بھر تا تھا بلکہ چیلنج دیتا ہے کہ انگریز کے وفا داروں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو اس کے پائے کا ہو۔ چنگیز اور ہلاکو تو انگریز کے مقابلے میںکچھ بھی نہیں کیونکہ انھوں نے کبھی شریف زادیوں کو ننگا کر کے ان کے لواحقین کو ان سے بدکاری کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا حالانکہ وہ کورے وحشی تھے اور ’’مہذب‘‘ انگریز کے مقابلے میں تہذیب و تمدن جیسی کوئی چیز ان کے پاس سے نہ گزری تھی۔ کٹے ہوئے سروں کے مینار، انسانی خون کی بہتی ہوئی ندیاں، کراہتے ہوئے زخمیوں کا تڑپنا، بے بس عورتوں کی چیخ و پکار اور جلے ہوئے شہروں کی اُڑتی ہوئی راکھ، چنگیز اور ہلاکو کی فوجوں کے دل پسند مناظر تھے لیکن ان کی قتل و غارت کی ساری تاریخ میں ایک واقعہ بھی نہیں جہاں انھوں نے بے بس عورتوں کو برہنہ کر کے ان کے لواحقین کو ان سے فعل بد کرنے پر مجبور کیا ہو لیکن یہ ننگ انسانیت، طغرائے امتیاز صرف اس سلطنت کو حاصل ہوا جس کی وفاداری کا دم مرزا قادیانی بھرتا ہے اور جس کے وہ عمر بھر قصیدے پڑھتا رہا۔

 ایسی قوم کی وفا داری، اس کی خدمت اس کے مفادات کی حفاظت وہی شخص کر سکتا ہے جس میں دین کی رمک تو خیر ختم ہو ہی گئی ہو مگر ساتھ ہی ساتھ اس کا ضمیر بھی مکمل دم توڑ گیا ہو ۔ اور پھر مرزا قادیانی کا اپنی جماعت کے بارے میں چیلنج کر نا کہ’’  تمام فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اوّل درجہ کا وفادار اور جان نثار یہی نیا فرقہ ہے ‘‘ سب کچھ سمجھا دینے کیلئے کافی ہے ۔ ہمارے ارباب اختیار اگر آج بھی اس جماعت سے وابسطہ افراد کو کلیدی عہدوں سے ہٹا دیں تو اس ملک کے حالات بہتری کی طر ف گامزن ہو سکتے ہیں ۔